کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 136
(۲) سیرتِ طیبہ کے مطالعے کے یہ تین خاص نقطۂ نظر ہیں۔ جہاں تک پہلے نقطۂ نظر کا تعلق ہے، وہ مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے لیکن دوسرے نقطہ ہائے نظر یعنی تاریخی و علمی اور ادبی، ایسے ہیں جس میں ہر مذہب اور ہر ملت کے اصحاب علم اور اہل قلم شامل ہیں اور انہوں نے سیرت و نعت کے لٹریچر میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ اب ہم سرسری طور پر اس امر پر بحث کریں گے کہ مختلف نقطہ ہائے نظر سے سیرت میں کس قسم کے لٹریچر کی موجودہ دور میں ضرورت ہے۔ انسان مختلف زبانیں بولتا ہے، مختلف نسلوں سے تعلق رکھتا ہے، مختلف طبقوں میں بٹا ہوا ہے، زمین کے مختلف ٹکڑوں اور جغرافیائی دائروں میں رہتا بستا ہے، وہ مختلف پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہوا ہے، اس میں اصناف کے لحاظ سے تقسیمیں ہیں یعنی مرد، عورت، عمروں کے لحاظ سے تفاوت ہیں۔ یعنی بچے، جوان اور بوڑھے۔ پھر یہ تمام لوگ نہ علم میں یکساں ہوتے ہیں اور نہ ذہنی و فکری سطح سب کی ایک ہوتی ہے۔ ان واقعی، غیر واقعی، حقیقی یا مصنوعی تقسیموں اور تفریقوں نے ان کے مزاج، ان کے شوق، ان کے ذوق، ان کے میلان اور ان کی نفسیات میں زمین و آسمان کا فرق پیدا کر دیا ہے۔ پھر یہ بھی ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ ہر زمانے کے لوگوں کی ذہنی استعداد اور اخذ و قبول کی صلاحیت یکساں نہیں ہوتی، حالات کی تبدیلی کے ساتھ لوگوں کا ذوق و رجحان تبدیل بھی ہوتا رہتا ہے اور ذہنی و فکری استعداد میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ نئے نئے مسائل سامنے آت ہیں اور اندازِ فکر تبدیل کر دیتے ہیں۔ ان تغیرات و تبدّلات اور اختلافات و تنوعات میں وہی لٹریچر کامیاب ہوتا ہے جس میں وقت کے رجحان و ذوق کی تسکین کا خیال رکھا گیا ہو۔ وہ لٹریچر جس سے قاری کے ذوق و رجحان کی تسکین اور اس کی زندگی کے حل میں جس سے مد نہ ملتی ہو، اس کے ا۔ثرات دل کی گہرائیوں میں نہیں اُتر سکتے۔ پہلے ادوار میں انقلابات و تغیرات کی رفتار بہت سست ہوتی تھی، اس لئے ہمارے اسلاف نے اپنے اپنے وقتوں میں تصنیف و تالیف کے میدان میں جو کارنامے انجام دیئے، انہوں نے صدیوں تک لوگوں کے ذہن و فکر کو مسحور رکھا لیکن موجودہ سائنسی دور میں دنیا ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں ماضی سے اس کا رشتہ صرف تاریخی باقی رہ گیا ہے اور مزاج، نفسیات، ذوق، رجحان اور زندگی کے مسائل اور ان کے حل کے طریق، انداز فکر غرضیکہ ہر لحاظ سے یہ ایک بالکل نئی دنیا ہے اور چونکہ انقلابات و تغیرات کی