کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 135
گیا ہے۔ انا بعثتُ لاتمم مکارم الاخلاق میری بعثت کا مقصد تو مکارم الاخلاق کا اتمام اور تکمیل ہے۔
اس لئے مسلمانوں کے لئے سیرتِ طیبہ کے مطالعے کی ضرورت اور تعلیم و اصلاح کے نقطہ نظر سے اس کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔ سیرتِ طیّبہ سے زیادہ موثر کوئی ذریعۂ ہدایت نہیں۔ یہ ہزاروں شکوک و ادہام کے مہلک زہر کا ایک تریاق ہے۔ حکمائے اُمّت نے ایسے اذہان و قلوب کے لئے جن کا اطمینان و سکون، شکوک و اوہام کے ہاتھوں تباہ ہو چکا ہو یا فلسفہ و کلام کے انہماک نے برباد کر دیا ہو دار الشفائے نبوت سے رجوع اور سیرتِ نبویہ کے نسخۂ شافیہ الٰہیہ کے استعمال کا ہمیشہ مشورہ دیا ہے۔
شیخ عماد الدین واسطی کے انقلابِ حالات کی روداد اب اردو جاننے والوں کے لئے راز نہیں رہی۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے ’’تذکرہ‘‘ میں اس سے پردہ اُٹھا کر اردو زبان کا قابلِ فخر سرمایہ بنا دیا ہے۔ مولانا نے نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ فقہاء و متکلمین اور عامہ متصوفین کی صحبتوں میں رہ کر کس طرح ان کے دل کا سرمایۂ یقین و طمانیت برباد ہو گیا تھا لیکن حضرت شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایک ہی صحبت اور مطالعہ سیرت کے ایک ہی عملِ صالح نے کس طرح ان کی کایا پلٹ کر دی۔
بعثت نبوی تاریخِ اسلام کا ایک عظیم الشان واقعہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک دعوت کا ظہور اور ایک امت کے قیام کا اعلان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اگرچہ ایک خاص خاندان میں ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے اوّلین مخاطب اگرچہ ایک خاص خاندان میں ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے اوّلین مخاطب اگرچہ ایک خاص قوم کے لوگ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ تعلیم و تربیت کا شرف بھی اگرچہ سب سے پہلے ایک خاص خطے کے بسنے والوں کے حصے میں آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہ تو کسی خاص خاندان کے عز و شرف کا اعلان تھا، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کسی ایک قوم کے لئے مخصوص اور کسی خاص ملک تک محدود تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس لئے نہ تھی کہ کوئی خاص خاندان اپنی سیادت کا نظام قائم کر کے لوگوں کی عقیدتوں اور ارادوں کا استحصال کرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس قسم کے تمام نظاموں اور فلسفوں کو مٹانے اور تمام کائنات پر صرف انسانیت کے مجدد شرف کے قیام کی دعوت تی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت نے تاریخ مذاہب، تاریخ تہذیب و تمدّن اور تاریخِ علوم و تصنیف و تالیف میں سیرت نگاری کے ایک مستقل فن کا اضافہ ہوا اور پھر اس فن کی متعدد فروع ہیں۔ مثلاً شمائل نگاری اور نعت گوئی، ان کے اصول و آدابِ نگارش الگ الگ ہیں۔ پھر سیرت و شمائل نگاری اور نعت گوئی نے ادب و شعر کی مختلف اصناف کو کس کس طرح متاثر کیا۔ یہ تحقیق و مطالعہ کا ایک الگ موضوع ہے۔