کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 132
رفیقِ طریق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بہت سے دینار تھے۔ انہوں نے وہ اپنے ساتھ لئے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ساتھ لے جانے کے لئے کوئی سرمایہ نہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ رقم مسجدِ نبوی کی زمین خریدنے اور مہاجرین کی آباد کاری کے کام آئی۔ مکہ معظمہ میں آپ کی کوئی غیر منقولہ جائیداد بھی نہ تھی۔ البتہ حضرت خدیجۃ رضی اللہ عنہا الکبریٰ کا ایک چھوٹا سا مکان تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان سکونت پذیر تھا اور ہجرت کے بعد بی بی زینب رضی اللہ عنہا رہائش پذیر تھیں۔ مدنی زندگی: ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سربراہِ ریاست کی حیثیت سے تھے۔ مدینہ جاتے ہی یہود کے ساتھ معاہدہ ہوا اور انہوں نے اختلافی معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تسلیم کر لیا۔ مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات کم تھیں مگر مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاکم تھے، سپہ سالار تھے اور عادل بھی۔ ان گو ناگوں مصروفیات میں کاروبار عملاً ناممکن تھا۔ آغاز میں بیت المال کی آمدنی ضروریات کے مقابلے میں اس درجہ کم تر تھی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کرام تنگ دستی سے گزر بسر کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل و عیال عسرت کی زندگی گزار رہے تھے اور بعض اوقات کئی کئی دن چولہے میں آگ تک نہ جلتی تھی اور ایسی ہی زندگی کئی دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدینہ منورہ میں قیامِ سلطنت پر مہاجرین کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر انصار کی جانثاری اور اولو العزمی نے جملہ مشکلات پر قابو پا لیا۔ مہاجرین کی سرگرمیاں دوبارہ عود کر آئیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کپڑے کی تجارت کرنے لگے۔ ’’سلخ‘‘ کے مقام پر ان کا کپڑے کا کارخانہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تاجر تھے اور ان کی تجارت کا سلسلہ ایران تک پھیلا ہوا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بنو قینقاع کے بازار میں کھجوروں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ عبد الرحمان رضی اللہ عنہ بن عوف پنیر بیچتے تھے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بھی کپڑے کے تاجر تھے اور شام سے ان کا بیوپار تھا۔ اسی طرح دیگر عام مہاجرین ’یبتغوا من فضل اللہ (الجمعه)‘ کے حکمِ قرآنی کے پیشِ نظر تجارت یا زراعت کو اپنائے ہوئے تھے۔ ۶ھ میں خیبر اور فدک کی زرخیز اراضی مسلمانوں کے قبضے میں آگئی۔ بنی قریظہ اور بنی نضیر کے یہودی قبائل زرخیز اور سرسبز زمینیں چھوڑ کر گئے تھے اور ان کا ۵/۱ حصہ بیت المال میں آچکا تھا لیکن خراج اتنا کم تھا کہ ضروریاتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے ناکافیٔ محض تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہمان بکثرت آنے لگے تھے۔ عرب قبائل کے وفود کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ اصحابِ صُفّہ کا خرچ جدا تھا اس لئے قدرے خوشحالی کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عسرت برقرار رہی۔