کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 131
کے اہم شہروں کے نام، محل وقوع اور دیگر اہم تاریخی اور جغرافیائی معلومات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں محفوظ تھیں۔ نجاشی کے نام وہ مکتوب دیکھتے ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے تعارف کے لئے لکھا تھا یا نبوت کے پانچویں سال حبشہ کی جانب مہاجرین کو رخصت کرتے ہوئے جو الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حبشہ اور دربارِ حبشہ سے خوف واقف تھے۔ عام الوفود میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عرب کے اکثر مقامات کے وفود آئے تو ان میں عبد القیس کا وفد بھی تھا جو بحرین سے آیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے اہم مقامات کا نام لے لے کر ان کی حالت دریافت کی۔ اس پر ان لوگوں کو تعجب ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مقامات سے کیسے واقف ہیں؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتا کر ان کی حیرت دور کر دی کہ میں نے یہ مقامات خوب دیکھے ہیں۔ مکّی زندگی: ۱۵ سال قبل نبوی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی رسم ادا ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر آگئے۔ نکاح کے بعد بھی تجارت کا شغل جاری رکھا مگر نزولِ وحی سے تقریباً پانچ سال پہلے کاروبارِ دنیا سے طبیعت اچاٹ ہو گئی تھی اور تجارت کی طرف رغبت پہلے سے بہت کم ہو گئی تھی۔ صرف حج کے موقع پر معمولی لین دین کرتے تھے جس سے آذوقۂ حیات حاصل ہو جاتا تھا۔ باقی وقت یادِ الٰہی اور اصلاحِ معاشرہ میں گزرتے تھے۔ نزولِ وحی سے دو سال پہلے تو یہ حالت تھی کہ دو دو ہفتے کی غذا لے کر غارِ حرا میں جا بیٹھتے اور یادِ الٰہی میں مشغول و منہمک رہتے تھے۔ اعلانِ نبوت کے بعد تیرہ سال مکہ میں بسر کیے۔ مکی زندگی اگرچہ فقر و فاقہ کی زندگی نہ تھی لیکن خوشحالی کی بھی نہ تھی۔ مخالفین نے اسلام کی دعوت کو ابتداء میں نظر انداز کرنے کی کوشش کی کہ شائد یہ آواز خود بخود ہی دم توڑ دے گی مگر جب ان کا یہ خیال خام نکلا تو ترغیب و تحریص سے کام نکالنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اصولوں پر سمجھوتہ ناممکن تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہہ دیا کہ اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر چاند اور بائیں ہاتھ پر سورج بھی لا کر رکھ دیں تو میں اپنے مقصدِ حیات سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ ترغیب و تحریص کی پیشکشیں ناکام ہو گئیں تو ظلم و تشدّد کی چکی پوری قوت سے چل پڑی۔ صحابہ کرام پر لرزہ خیز مظالم کئے گئے۔ اس دور میں مسلمانوں کے لئے بازار میں کاروبار کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا۔ آخر کفار نے سوشل بائیکاٹ کر دیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چچا ابو طالب کو بھی محصور ہونا پڑا۔ تین سال تک یہ سوشل بائیکاٹ جاری رہا اور جب ختم ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ سرمایہ تھا اور نہ پہلے سے تعلقات۔ کاروبار کی کوئی صورت نہ تھی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار غلام زید موسمِ حج میں کچھ کام کر لیتے تھے۔ جب مشرکینِ مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورّہ کو ہجرت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے