کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 130
مال شرط ہے اور ابو طالب بہت غریب تھے۔ دوسروں کا مال عرب کے میلوں میں لے جاتے تھے اور مزدوری پاتے تھے۔ اس قلیل آمدنی میں بمشکل گزر بسر ہوتی تھی۔ نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مفلوک الحال چچا کا ہاتھ بٹانے کی خاطر مزدوری پر اہل مکہ کی بکریاں چرانے کا کام کیا۔ ابو طالب کی دو چار بکریاں بھی ساتھ لے لیتے تھے۔
نوجوانی:
نوجوانی میں مکہ کے تاجروں کے ہاں مزدوری اور کبھی کبھی نفع پر کام شروع کر دیا۔ مکہ میں رواج تھا کہ تاجر موسمِ حج میں مال خرید لیتے تھے اور کسی دیانتدار آدمی کے ہاتھ نجد، یمن او شام کی منڈیوں میں بھیج دیا کرتے تھے۔ اکثر مال لے جانے والے کی مزدوری پہلے ہی طے کر دی جاتی تھی اور نفع میں اس کا ہرگز کوئی حصہ نہ ہوتا تھا اور کبھی اُجرت کے ساتھ نفع سے بھی کچھ حصہ دے دیا جاتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، سہیل کا مال دوسرے ملکوں میں لے جاتے تھے۔
۲۵ سال کی عمر تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجرت پر کام کیا اور اپنی دیانت و امانت اور فرض شناسی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ ’’صادق الامین‘‘ لقب پایا۔ بہت سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا شریکِ تجارت بنانے کی خواہش کا اظہار کرنے لگے۔ آپ کا شعار تھا کہ جب اپنا اور دوسروں کا مال لے کر باہر جاتے تو واپسی پر سب سے پہلے شرکاء کو منافع کی ایک ایک کوڑی کا حساب دیتے۔ جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تجارت میں شراکت کی تھی۔ ان میں سے اکثر نے بعد میں اسلام قبول کر لیا۔ وہ ہمیشہ آپ کے حسنِ معاملت اور دیانتداری کی تعریف کرتے تھے۔ حضرت قیس رضی اللہ عنہ بن سائب محزومی ان لوگوں میں سے ہیں جو عہد جاہلیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریکِ تجارت رہ چکے تھے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا کرتے تھے کہ ’میں نے عہدِ جاہلیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تجارتی ساجھا کیا تھا۔ دیانت داری اور راست بازی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے مثال تھےاور حساب کے معاملے میں ان کا مجھ سے کبھی جھگڑا نہ ہوا۔‘‘
تجارت سے جو کچھ حاصل ہوتا تھا اس سے بمشکل گزر بسر ہوتی تھی۔ ابو طالب نے خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے موقع پر جو خطبہ پڑھا تھا۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ اور شرافتِ نسبی کا صریحاً ذکر کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال و زر بالکل نہیں ہے۔ نیز ۲۵ برس کی عمر تک ناکتخدا رہنا بھی بے زری کی دلیل ہے جب کہ قریش کے سولہ سترہ برس کے نوجوانوں کی شادیاں ہو جاتی تھیں۔
تجارت کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدّد سفر کیے۔ فلسطین، شام، یمن، بحرین، عمان اور غالباً حبشہ کا سفر بھی کیا تھا اور ان مقامات کی خوب سیر کی تھی۔ مدتوں بعد بھی ان علاقوں