کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 13
سچائی کی شناخت کا معیار کیا قرار پایا؟ مختلف قسم کی جسمانی سزائیں، عقوبتیں اور اذیتیں، اگر کسی فرد یا جماعت نے سچائی کا دعویٰ کیا، پارلیمنٹ نے آزمائش کا معیار کیا منتخب کیا؟ کبھی لوہے کو آگ میں تپایا گیا اور ان کے جسم داغے گئے اس شدید عذابِ اذیت سے اکثر جاں بحق ہوں گئے۔ اگر کوئی بچ رہا تو قید کی کڑیاں جھیلنے کو، جیلوں کی کوٹھریاں آباد کرنے کو مسیحی معیار اور کیا تھا؟ دریا میں ڈبویا جاتا تھا، ہاتھ پاؤں باندھ کر کبھی بند بکسوں اور بوروں میں تنہا، کبھی وزن کے لئے پتھروں کے ساتھ، یہ اور اسی قسم کے اور صدہا اور ہزارہا ظالمانہ طریقے تھے ان کے معیارِ شناخت کے۔ بہرحال جس نے اقانیمِ ثلاثہ سے انکار کیا یا توحید کی دعوت دی‘ فیصلہ ہوا کہ سچائی کے عوے کو جانچا جائے اور کس طرح جانچا اور پرکھا جائے؟ آگ اور پانی کے ذریعے۔ نہ عقل، نہ فہم، نہ ادراک، نہ بصیرت، بس آگ اور پانی۔ یہ تھے آسیب زدہ انسان کے فیصلے کے مطابق سچائی کے معیار، ان میں سے جو نہ جلتا یا کم جلتا یا نہ وبتا یا ڈوب کر اُبھر آتا اس کے حق پر ہونے کی مہر لگ جاتی۔ عقلِ انسانی کسی گوشے میں بھی کارگر نہ تھی۔ سرچشمۂ ضلالت: پس بتاؤ کی کیا خدا کی مخلوق، اسی شدائد و مصائب کے لئے پیدا ہوئی تھی، کیا کوئی عقل ایک لمحے کے لئے تسلیم کر سکتی ہے کہ کسی مذہب اور توحید کی سچائی کی جانچ کے لئے یہ معیار صحیح ہے؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر کیا قرآن کی بولی میں یہ عذابِ الیم اور محن و مصائب، زنجیریں اور بوجھ نہ تھے، جو مسیحی نظامِ حکومت نے نوعِ انسانی کے پاؤں میں اور گردنوں پر ڈال رکھے تھے؟ تاریخ کے اوراق پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالو، ساتویں صدی عیسوی کے مسیحی نظامِ سلطنت کو پڑھ جاؤ، تمہیں ان کے مذہبی اعمال و عقائد کی کیفیت، ان کے اوہام و ظنون کی داستان، ان کی وحشت و بربریّت، درشتگی و درندگی کا حال معلوم ہو جاے گا۔ میں نے تو صرف ایک اشارہ کر دیا ہے۔ کتاب اللہ، انا جیل جس کی بنیاد وحیٔ الٰہی پر تھی، باقی نہ رکھی گئی، بلکہ چند انسانوں کے ہاتھ کی ایک تصنیف و تالیف ہو کر رہ گئی جو ہر وقت و ہر لمحہ ذاتی و نفسانی ضروریات کے لئے تبدیل و تحریف کی جا سکتی تھی۔ پوپ جو پطرس کا جانشین تسلیم کر لیا گیا تھا، چرچ اور تختِ روما کا مالک تھا اور انا جیلِ مقس کی کتربیونت کا باختیار حاکم۔ ضلالتِ عیسائیت کا سرچشمہ کون تھا، کیا کتاب اللہ؟ نہیں! کیا عقل و فہم؟ نہیں! پھر کیا تھا؟ چند انسانوں کا غلط فیصلہ، وہ فیصلہ جو نفس و جنون کے زیرِ اثر نافذ ہوتا تھا۔ دلیل و اجتہاد سے معرّا فیصلہ۔ یہ بات سننے میں اتنی ہلکی معلوم ہوتی ہے اور آپ کے چہروں کے مشاہدے سے میں اس نتیجے پر پہنچ رہا ہوں کہ آپ نے بھی اس کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ غور کرو! میں نے کتنی عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس