کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 129
تھے۔ یمن اور باز نطینی سلطنت کے زیرِ اثر علاقوں میں بے روک ٹوک تجارت کی غرض سے ان بادشاہوں سے پروانے حاصل کئے۔ ابنِ حبیب کی روایت کے مطابق قصی کے چار بیٹے تھے اور ان میں سے تین تجارتی سفروں میں فوت ہوئے۔ قرآنِ کریم میں قریش کے تجارتی قافلوں اور سفروں کا ذِکر سورۂ قریش میں ’’رحلة الشتاء والصيف‘‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ قریش کی معاشی زندگی کا انحصار تین چیزوں پر تھا۔ 1. رحلۃ الشتاء والصیف قریش جاڑوں میں جنوب یعنی یمن کی طرف کاروانِ تجارت لے کر جاتے تھے اور گرمیوں میں شام اور ایشیائے کو چک کا رخ کرتے تھے۔ ذی قعدہ کے مہینے میں قریش کے تجارتی قافلے واپس مکہ آجاتے تھے کیونکہ اگلے ماہ ذی الحجہ میں ان کا مکے میں موجود ہونا ضروری ہوتا تھا۔ 2. عرب میں مختلف مقامات پر بازار لگتے تھے۔ تیرہ مقامات کے نام تاریخ میں موجود ہیں یعنی ’’دومۃ الجندل، مشقر، صحار، دبا، شجرہ، عدن، صنعاء، حضر موت، عکاظ، ذوالمجاز، منیٰ، خیبر یمامہ‘‘ مکہ کے قریب عکاظ کے موقتی بازار میں قریش اپنا مال فروخت کرتے تھے: 3. محصولِ بدرقہ: چونکہ جزیرۃ العرب میں لوٹ مار عام تھی اس لئے نجد و حجاز سے گزرنے والے تاجر اپنی حفاظت کے لئے قریش کو محصول ادا کر کے ان سے حفاظتی دستہ حاصل کرتے تھے تاکہ قریش کے حلیف ان پر ڈاکہ نہ ڈالیں۔ کبھی دو چار قریشی نوجوان قافلے کے ساتھ ہو جاتے تھے اور کبھی قریشی نوجوان کے زیر سر کردگی غلاموں کو ساتھ بھیج دیا جاتا تھا۔ ولادتِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم : واقعۂ فیل کے ۹۳ یا ۹۴ دن بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے سردار عبد المطّلب کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت سے تین ماہ پہلے شام کے ایک سفر سے واپس آتے ہوئے مدینہ کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ چھ سال کی عمر تھی کہ والدہ وفات پا گئیں۔ نو سال کی عمر میں دادا عبد المطّلب نے بھی داغِ مفارقت دے یا۔ عبد المطلّب ایک خوش حال قریشی سردار تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو والد سے ورثے کے طور پر پانچ اونٹ، دو چار اونٹنیاں اور کچھ بکریاں ملی تھیں۔ ایک باندی اُمِ ایمن کا ذکر بھی آتا ہے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا مگر یہ وراثت اتنی کم تھی کہ نو سال کی کفالت کے لئے یہ مال کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا۔ عبد المطلب کی وفات کے بعد آپ کی نگرانی شفیق مگر مفلوک الحال چچا کے سپرد ہوئی۔ ابو طالب کثیر العیال تھے اور آمدنی کا کوئی معقول ذریعہ نہ تھا۔ گزر بسر کا ذریعہ محض تجارت تھی مگر تجارت کے لئے