کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 128
سباکا پایہ تخت مآرب روئی اور کپڑے کے کاروبار کے لئے زمانۂ اسلام تک مشہور تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں کے باشندوں پر نقد جزیہ عاید کرنے کے بجائے کپڑا ہی مقرر کیا تھا۔ اسی طرح اہل بخران پر بھی حُلّوں کی صورت میں جزیہ عائد کیا گیا۔ تجارت: جزیرۃ العرب کے آباد علاقے تمام تر ملک کے تین اطراف بحری سواحل پر واقع ہیں۔ بحرین اور عمان خلیج فارس پر، حضر موت اور یمن بحرِ عرب پر اور مشرق میں حجاز و مدین بحرِ احمر پر واقع ہیں۔ زراعت اور صنعت پسماندہ ہونے کی وجہ سے تجارت کے کاروبار کو فروغ حاصل ہوا۔ عربوں کی تجارت پر تورات اور یونانی جغرافیہ دانوں کے بیانات سے کچھ روشنی پڑتی ہے۔ ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب تاجر دو ہزار برس قبل مسیح سے برابریہ خدمات انجام دے رہے تھے۔ عربوں کے تجارتی تعلقات ہندوستان، حبش، ایران، بابل، مصر اور یونان سے قائم تھے۔ یہ جملہ ممالک عرب کے ارد گرد اس طرح واقع ہیں کہ عرب اس دائرہ کا مرکز ہے۔ اندرونِ جزیرہ نما بھی تجارت ہوتی تھی۔ شام، عراق اور سعودی عرب ویمن کے درمیان بھی تبادلۂ اشیاء ہوتا تھا۔ عربوں کی تجارت کا سرمایہ عموماً تین چیزیں ہوتی تھیں۔ 1. کھانے کا مسالہ اور خوشبو دار اشیاء۔ 2. سونا، جواہرات اور لوہا۔ 3. چمڑا، کھالیں، زین پوش اور بھیڑ بکریاں۔ دو ہزار سال قبل مسیح جو عرب تاجر بارہا مصر جاتے تھے۔ ان کا سامانِ تجارت ان آیات سے واضح ہے۔ بلسان، صنوبر، لوبان اور دیگر خوشبو دار چیزیں۔ [1] حضرت داؤد علیہ السلام ایک ہزار سال قبل مسیح میں سبا کا سونا مانگتے ہیں۔ [2] ۹۵۰ ق۔ م میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ملکۂ سبا جو تحفہ لائی وہ یہ تھا۔ ’’خوشبو دار چیزیں، بہت سا سونا، بیش قیمت جواہر۔‘‘ [3] حضرت سلیمان علیہ السلام کی کشتیاں یمن کی بندرگاہ ادفر سے سونا لاتی تھیں۔ [4] دورِ جاہلیت میں قریش کی تجارت: خاندانِ قریش کے جدِ امجد قصّی نے تجارت کو دور دراز تک پھیلا۔ قیصر روم اور شاہ نجاشی سے قصی کے تجارتی روابط
[1] تکوین ۳۶:۳۷ [2] زبور: ۷۲ [3] ایام ۹:۹ [4] ملوک: ۲۷:۹