کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 127
ہی تم پر حکومت کرے گا اور جدعون نے ان سے کہا کہ میں تم سے یہ عرض کرتا ہوں کہ تم میں سے ہر شخص اپنی لوٹ کی بالیاں مجھے دے دے (یہ لوگ اسماعیلی تھے اس لئے ان کے پاس سونے کی بالیاں تھیں) انہوں نے جواب دیا کہ ہم ان کو بڑی خوشی سے دیں گے۔ پس انہوں نے ایک چادر بچھائی اور ہر ایک نے اپنی لوٹ کی بالیاں اس پر ڈال دیں۔ ‘‘[1] مسلمانوں میں ابن حائک ہمدانی (م ۲۳۰ھ) نے اپنے جغرافیے میں معاونِ عرب کا کھوج لگایا ہے۔ علمائے یورپ میں برٹن [2] (Burton) نے The Gold Mines of Midianمیں مدین کے طلائی معاون کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ عمان اور بحرین کے ساحلی علاقوں میں موتی نکالے جاتے ہیں ۔ [3]
صنعت و حرفت:
شہری آبادی کی ضروریات کے پیشِ نظر صنعت و حرفت کا وجود ناگزیر تھا۔ اور عرب کے ہر حصے میں اعلیٰ یا ادنیٰ صنتی اشیاء تیار ہوتی تھیں۔ تاریخِ عرب میں صنعتی اشیاء پر کوئی خاص روشنی نہیں ملتی تاہم یمن کی پارچہ بافی اور جفت سازی مشہور تھی۔ چمڑا رنگنے کا فن (دباغت) عہدِ جاہلیت ہی سے تھا۔ یمن کی رنگی ہوئی کھالیں اس قدر مشہور تھیں کہ فارسی شعراء کے کلام میں بھی اس کی تلمیحات ملتی ہیں۔ کھالوں کے اعلیٰ ہونے کا سب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ستارہ سہیل جو یمن کے مقابل طلوع ہوتا ہے اس کی روشنی میں کھال کی دباغت بہت عمارہ ہوتی ہے۔
عربوں کا اہم پیشہ لوٹ مار تھا اور اس پیشے پر انہیں فخر تھا۔ اس پیشے کی وساطت سے شمشیر سازی اور نیزہ سازی کی طرف توجہ دی گئی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی نگاہ میں وہ پیشہ عمدہ خیال کیا جاتا تھا جو انہیں جنگ و جدل میں معاون ثابت ہوتا تھا۔
[1] قضاۃ ۸: ۲۴۔ ۲۶
[2] سر رچرڈ برٹن ۱۸۲۱ء میں پیدا ہوا۔ ۱۸۴۲ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم ہو کر ہندوستان آیا اور نیل گری پہاڑوں کی تحقیقات کیں۔ ۱۸۵۲ء میں برٹن نے درویش کے بھیس میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کی اور اپنے سفر کا احوال تین جلدوں میں لکھا۔ افریقہ، جنوبی امریکہ اور فلسطین میں بھی اس سیاح نے سفر کیا اور ہر ایک کے بارے میں مبسوط کتابیں تصنیف کیں۔ ’الف لیلہ‘ کا لفظی ترجمہ کیا جس میں بھی اس سیاح نے سفر کیا اور ہر ایک کے بارے میں مبسوط کتابیں تصنیف کیں۔ ’الف لیلہ‘ کا لفظی ترجمہ کیا جس کی وجہ سے خاصا مشہور ہے۔ ۱۸۹۰ء میں انتقال کیا (حاشیہ تمدن عرب ص ۹۹)
[3] ارض القرآن ص ۸۶