کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 126
شمالاً جنوباً پورٹ سعید (العریش) سے عدن تک طول پندرہ سو میل اور شرقاً غرباً سویز سے فرات تک عرض چھ سو میل ہے۔ کل رقبہ تیرہ لاکھ مربع میل ہے۔ جزیرۃ العرب کا سارا علاقہ مسطح نہیں۔ کہیں کہیں کوہستانی سلسلے موجود ہیں۔ بڑا حصہ لق و دق صحرا ہے۔ شمالی حصے میں شام اور سعودی عرب کا درمیانی علاقہ وسیع ریگستان ہے جسے اہل عرب ’’بادیہ شام‘‘ اور غیر عرب ’’بادیہ عرب‘‘ کہتے ہیں جنوبی حصے میں یمن، عمان اور یمامہ کے درمیان دوسرا ناقابلِ بود و باش بے آب و گیاہ صحرا ہے جسے ’ربع الخالی‘ کہا جاتا ہے۔ اس صحرا کی ایک نوک بحرین اور نجد سے گزر کر صحرائے شام میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس صحرا کا مجموعی رقبہ اڑھائی لاکھ مربع میل ہے۔
’ربع الخالی‘ کے جنوبی حصے میں تھوڑی سی بارش سے کچھ ہریالی ہو جاتی ہے۔ خانہ بدوش قبیلوں کے اونٹوں کا گزارہ اسی ہریالی پر ہے اور یہ قبائل سبزے کی تلاش میں سارا سال گھومتے پھرتے ہیں۔ گستاولی بان لکھتا ہے:
پیداوار اور زراعت:
’’اس ملک کے خطوں کی آب و ہوا مختلف ہے۔ اس کی پیداوار بھی مختلف ہے۔ اس میں گرم اور معتدل دونوں ملکوں کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ عربستان کے شاداب خطوں میں تقریباً وہ سب میوہ جات اور غلّے موجود ہیں جو یورپ میں پیدا ہوتے ہیں۔ یمن کے خطے میں زراعت خوب ہوتی ہے لیکن کاشتکاروں کو محنتِ شاقہ کرنی پڑتی ہے کیونکہ ہمیشہ زمین کو سیراب کرنے کی ضرورت ہے اور اس کام کے لئے بارش کا پانی کنوؤں اور حوضوں میں جمع کیا جاتا ہے۔ [1]
یمن اپنی زرخیزی اور شادابی کی وجہ سے قدیم ایّام سے بیرونی لوگوں کی وجہ کا مرکز رہا ہے۔ بحرِ احمر کے ساتھ ساتھ عیسر کا علاقہ بھی سرسبز ہے یہاں کبھی کبھی بارش ہو جاتی ہے اور سبزہ اونٹوں کا چارہ بن جاتا ہے۔ نیز عیسر میں طویل کوہستانی سلسلے ’جبل السرات‘ پر کئی چراگاہیں موجود ہیں۔
معدنیات:
قدیم اقوام میں عرب کی شہرت اس کی طلائی اور نقرئی معدنیات اور خوشبو ار اشیاء کی پیداوار کی وجہ سے تھی۔ یونانی مورخ ہیرو ڈوٹس نے اپنی تاریخ میں عرب کی اس خصوصیت کا ذکر کیا ہے۔ تورات تو ملکِ عرب کے سونے، چاندی اور بخورات کے ذکر سے بھری پڑی ہے۔ مثلاً
’’جدعون نے ان سے کہا کہ نہ میں تم پر حکومت کروں اور نہ میرا بیٹا بلکہ خداوند
[1] تمدّنِ عرب ص ۹۲