کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 122
حجّۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: 1. فإنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ إلَى أَنْ تَلْقَوْا رَبَّكُمْ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، (ابن ہشام جلد ۴ ص ۲۵۰) بلاشبہ تمہاری جان و مال اور آبرو ایک دوسرے کے لئے اسی طرح محترم ہے جس طرح آج کا یہ دن۔ حتیٰ کہ تم اللہ سے جا ملو۔ 2. کل المسلم علی المسلم حرام دمه وماله وعرضه (مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الظلم ج ۸ ص ۱۱۱، ابو داؤد ص ۳۷۲) مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے، اس کا خون بھی، اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی۔ شخصی آزادی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرد کو ہر قسم کے حاکمانہ جبر و استیصال سے نجات دلائی اور فرمایا: 1. عن مقدام بن معد یکرب وأبی أمامة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال  إنَّ الأميرَ إذا ابتغى الرِّيبةَ في النَّاسِ أفسَدَهُم (ابو داؤد کتاب الأدب باب النہی عن التنجیس ج ۴ ص ۳۷۵) مقدام رضی اللہ عنہ بن معد یکرب اور ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلعم نے فرمایا، امیر جب لوگوں کے اندر شبہات کی تلاش کرے تو ان کو بگاڑ دیتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی واقعہ شخصی آزادی کے تحفظ کے لئے کافی ہے: عن بَهزِ بنِ حكيمٍ عن أبيهِ عن جدِّه أنَّهُ قام إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ وهو يخطبُ ، فقال جيراني بما أخذُوا ، فأعرض عنهُ ، مرتيْنِ ، ثم ذكر شيئًا ، فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ : خلُّوا له عن جيرانِه (ابو داؤد كتاب الاقضيه ج ۳ ص ۳۲۷) بہر بن حكيم اپنے باپ سے اور وه اپنے دادا سے روايت كرتے ہيں کہ وه (ان كے دادا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے در آنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے انہوں نے سوال کیا کہ میرے پڑوسیوں کو کس قصور میں گرفتار کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اس سے صرفِ نظر کیا تو اس شخص نے پھر کچھ کہا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو۔ میثاقِ مدینہ رائے اور مسلکِ کی آزادی کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ پورا خطبہ حجۃ الوداع