کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 12
کو کام میں لائیں، بلکہ ہمیں حقیقت اور صرف حقیقت کی رو سے معاملے کی چھان بین کرنی ہے، تاریخ کا ایک کھلا ہوا باب اور عریاں حقیقت ہے کہ قرآن حکیم نے چند لفظوں میں جو نقشہ کھینچ دیا ہے، ساتویں صدی عیسوی میں نسلِ انسانی کا ہُو بہُو وہی نقشہ، وہی فوٹو اور وہی حالتِ زار تھی۔ شاہانہ اقتدار بے جا اور قانونِ وقت نے نوعِ انسانی کو بے طرح جکڑ بند کر دیا تھا، میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اس کے ثبوت کے لئے، تمہیں بہت دور اور تاویلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ صرف تاریخ کے چند اوراق کی ورق گردانی کے بعد ہی تہار سامنے اس وقت کا پورا نقشہ آجائے گا۔ اور ان جگر خراش واقعات کی صورت پر بھروسہ کرتے ہوئے حیاتِ جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کا مقابلہ کرو تو تمہارے سامنے امن و راحت کی جو تصویر آئے گی کیا اس پر رحمت کے سوا کسی دوسری چیز کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ نوعِ انسانی کی دونوں حالتیں جب موازنے کے لئے ترازو کے دو پلڑوں میں رکھی جائیں، پھر ہم تاریخ کا دروازہ کھٹکھٹائیں، اس سے پوچھیں حقیقت کیا ہے؟ انصاف کیا کہتا ہے؟ اس وقت اقوامِ الم کا کیا حال ہے؟ ظہورِ اسلام کے بعد صورتِ معاملہ کیا ہے؟
دورِ شہنشاہیّت:
تاریخ کا ناطق فیصلہ خود حقیقت بتلا دے گا۔ یہ کوئی پیچیدہ راز نہیں، ابھری ہوئی خصوصیت ہے۔ جب دعوتِ اسلام کا نمود ہوا‘ اس وقت امم عالم کا کیا حال تھا؟ انہوں نے تمدّن کی جو بنیاد اقوامِ عالم پر چھایا ہوا تھا۔ روما تمدّن ترقی پر تھا، قدیم یونانی ضوابط و قوانین، رسم و رواج، تمدن و معاشرت کا دور دورہ تھا اور ان تمام اقوام کا یہ حال تھا کہ آسمانی حکومت کا خاکہ تک برباد کر رہا تھا۔ نام نہاد قیصر تو تھا مگر حقیقت میں قیصر کا سایہ تک نہ تھا، مسیحی مذہب انتہائی عروج پر پہنچ چکا تھا، بجائے اس کے کہ غریبوں کی حکومت حق و صداقت کی سلطنت ہوتی، شہنشاہی مذہب ہو چکا تھا، ساتویں صدی عیسوی میں جب کہ عیسوی مصلحین کا ظہور ہوا تھا، اخوّت، ایثارِ نفس، ہمدردی کے بجائے تمام و کمال جابرانہ نظام نافذ تھا، عقل و فہم اور ادراک کا نام لینا ان کی مجلسِ ملّی کے سامنے کفر تھا، بلکہ صرف مختلف آسیب زدہ روحوں کی شہادت پر تمام معاملاتِ ملّی و مذہبی کا فیصلہ کیا جاتا اور جب یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ سچائی کیا ہے، تو تمام تحقیقات کا دار و مدار آسیب زدہ انسان کی شہادت پر تھا۔ وہ اعلان کرتا تھا کہ فلاں گروہ کے ساتھ سچائی ہے، بس وہی فیصلہ، فیصلۂ ناطق تھا جو ان کی مجلسِ ملّی کے اعلان کی صورت میں نافذ ہوجاتا تھا۔
پاپائیت اور عقلِ انسانی کی مہجوری:
پھر جب قیصریت کا مرتبہ پوپ کو حاصل ہوا تو اس وقت