کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 119
لم يجد رائحة الجنة (طبرانی) ہے، وہ جنت کی ہوا بھی نہیں پائے گا۔ 2. شوریٰ: دوسری اہم چیز شوریٰ ہے یہاں کسی امیر کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی اور خواہش سے احکام نافذ کرے۔ اسے احکامِ خداوندی کی پیروی کرنا ہو گی اور اجتہاد و استنباط اور اس کے نفاذ میں اسے مقتدر اور ذمہ دار افراد سے مشورہ کرنا ہو گا۔ 1. وَاَمْرُھُمْ شُوْريٰ بَيْنَھُمْ (الشوریٰ: ۳۸) اور ان کا کام آپس میں مشورے سے ہوتا ہے۔ 2. وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِلِّیْنَ (اٰلِ عمران: ۱۵۹) اور معاملات میں ان سے مشورہ لے۔ پھر جب پختہ ارادہ کر لے تو اللہ پر ہی بھروسہ کر۔ اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ 3. عن علی رضی اللہ تعالٰی عنه قال سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن العزم قال مشاورۃ أہل الرایٔ ثم اتباعھم (ابن کثیر جلد ۱ ص ۴۲۰) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزم کے بارے میں سوال کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل الرائے سے مشورہ کرنا اور پھر ان کی پیروی کرنا۔ 4. عن عمر بن الخطاب قال لا خلافة إلا عن مشورة (كنز العمال جلد ۵ حديث ۲۳۵۴ ص ۱۳۹) مشورے کے بغیر کوئی خلافت نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے۔ من دعا إلی إمارۃ نفسه أو غيره من غير مشورة من المسلمين فلا يحل لكم أن لا تقتلوه (أیضاً حدیث ۲۵۷۷) جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر اپنی یا کسی اور شخص کی امارت کے لئے دعوت دے تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ اسے قتل نہ کرو۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا۔ أجمعوا العابدین من أمتی واجعلوہ بینکم شوریٰ ولا تقضوا برأی خاصة (روح المعانی جلد ۲۵ ص ۴۲) میری امت کے عابد لوگوں کو جمع کر کے باہمی مشورہ کرو اور کسی ایک رائے پر فیصلہ نہ کرو۔