کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 117
مَالِکَ فَہُوَ خَیْرٌ لَکَ‘‘قُلْتُ اِنِّيْ اُمْسِکُ سَہميَ الَّذِیْ بِخَیْبَرَ[1]
عرض کیا کہ خیبر کی زمین میں جو میرا حصہ ہے وہ میں نے بچا لیا ہے۔
ان اصلاحات کے ساتھ ساتھ قرضِ حسنہ اور ہمدردی و ایثار کے اصول عملی طور پر جاری کیے۔ جس سے معاشی طور پر خود کفیل ہو گیا۔ بلکہ ہر شخص عزتِ نفس کا پاس کرنے لگا۔ لوگ اپنے اپنے حقوق کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا تحفظ کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ معاشی میدان میں بد دیانتی، رشوت، لوٹ کھسوٹ اور فریب دہی کی لعنتیں ختم ہو گئیں اسی طرح معاشی جدوجہد کو خالص اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا تاکہ کوئی انسان خود غرضی کا شکار ہو کر ابنائے جنس پر ظلم نہ کرے۔
سیاسی زندگی:
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسان نے سب سے زیادہ ظلم اس وقت کیا ہے جب اسے سیاسی اقتدار ملا ہے۔ سیاسی اقتدار کے شر سے انسانوں کو تو متأثر ہونا ہی ہوتا ہے۔ زمین، فضا، حیوانات، نباتات اور جمادات تک بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک انسان جب دوسرے انسان کا گلا کاٹتا ہے فصلیں تباہ کرتا ہے۔ پانی میں زہر ملاتا ہے۔ زمین کو تہہ و بالا کرتا ہے اور فضا کو مکدّر کرتا ہے تو پوری کائنات اس سے پناہ مانگتی ہے۔ انسان کی مذہبی خدائی بھی بڑی خطرنکا ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ خطرناک انسان کی سیاسی خدائی ہے۔ انسانیت کے سیاسی خداؤں کی فہرست بڑی طویل اور دلچسپ ہے لیکن ایک پہلو ان سب میں مشترک ہے کہ وہ اپنی ذات کے تحفظ میں ہر ظلم، ہر زیادتی اور ہر خرابی کو صحیح سمجھتا ہے۔ عام انسان ان کے بندھنوں میں جکڑے ہوتے ہیں۔ مظلوم انسانوں کا وجود ان کی نظرِ التفات کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ حاکم و محکوم کی اس تقسیم نے ظلم و جور کے وہ کارنامے دکھائے ہیں کہ آدمی اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ معاہدات، بد دیانتی، کمزوروں پردراز دستی اور صلح و امن کی خلاف ورزی کی داستان اتنی ہی طویل ہے جتنی انسان کی تاریخ۔ انسان نے سیاسی استحکام و تسلط کی جتنی صورتیں تصنیف کی ہیں۔ ظلم و جور کو بڑھانے والی ہی ثابت ہوئی ہیں۔ عام انسانیت کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔
رحمۃً للّعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہلو پر بھی توجہ فرمائی اور اصلاح و انقلاب سے اسے نیا رنگ دیا۔ انبیاء میں غالباً آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک تنہا شخصیت ہیں۔ جنہوں نے سیاسی انصاف و استحکام میں نمایاں کام سر انجام دیئے۔ موسیٰ علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کی شخصیتیں بے شک اہم ہیں لیکن ان کا کام بھی اس نہج اور اس سطح کا نہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاسی زندگی میں
[1] بخاری باب الصدقات