کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 116
أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ منه طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ؛ إِلَّا كانَ له به صَدَقَةٌ. [1] اس میں سے انسان، پرند اور چرند کھائیں تو یہ بھی اس کے لئے صدقہ ہے۔ اس حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف انسانوں کا نہیں پرندوں کا بھی خیال فرمایا۔ 3. اقتصاد: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گردشِ زر کے عمدہ اصولوں کے ساتھ دولت کے بارے میں ایک نقطۂ نظر دیا۔ اسراف اور بخل کے درمیان اعتدال کی راہ سکھائی۔ قرآن پاک میں ہے: 1. وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَةً اِلٰي عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْھَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا[2] اور اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے حد سے زیادہ کھول ورنہ تو ملامت کیا ہوا درماندہ ہو کر بیٹھ رہے گا۔ 2. وَالَّذِيْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا[3] اور وہ جو، جب خرچ کرتے ہیں، نہ بیجا خرچ کرتے ہیں اور نہ (موقع پر) تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) ان (دو حالتوں) کے درمیان اعتدال پر ہے۔ 3. وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّه وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا. اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْا اِخْوَانُ الشَّيٰطِيْنِ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّه كَفُوْرًا [4] اور قریبی کو اس کا حق دے اور مسکین کو اور مسافر کو (بھی) اور بیجا خرچ کر کے (مال کو) نہ اُڑاؤ۔ مال اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکر گزار ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معیشت میں میانہ روی کو پسند فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: الاقتصادُ نصفُ المعيشةِ[5] حضرت کعب رضی اللہ عنہ بن مالک کہتے ہیں جب میں نے اپنے کل مال کو صدقہ کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’اَمْسِکْ عَلَیْکَ بَعْضَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے مال میں سے کچھ بچا لو یہ تمہارے حق میں بہتر رہے گا۔ تب میں نے
[1] مشكوٰة کتاب الزکوٰۃ باب فضل الصدقۃ ص ۵۹۷ [2] بنی اسرائيل: ۲۹ [3] الفرقان: ۶۷ [4] بنی اسرائيل: ۲۶۔۲۷ [5] کنز العمال عن ابن عمر