کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 112
صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ ‏. سود خوار، سود دینے والے، سودی دستاویز لکھنے والے اور گواہی دینے والوں پر لعنت کی ہے اور فرمایا کہ خدا کی پھٹکار میں یہ سب برابر ہیں۔ 2[1] عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ  أنه قَالَ: ’’كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ وَجْهٌ مِنْ وُجُوهِ الرِّبَا۔‘‘ [2] فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو قرض بھی نفع کھینچتا ہے وہ سود ہی کے اقسام میں سے ہے۔ آپ نے معاشی زندگی کے استحکام کی خاطر چند زریں اصول دیئے ہیں۔ ان کو اپنانے سے وہ تمام ناہمواریاں ختم ہو جاتی ہیں جو انسانوں کے ظالمانہ نظاموں نے پیدا کر رکھی ہیں۔ 1. معاشی جدوجہد کی پاکیزگی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشی جدوجہد کو پاکیزہ بنایا اور تمام ناجائز ذرائع کو خارج کر دیا۔ اسی طرح ہوسِ زر اور حُبِّ مال کی مذمت کی۔ اور مال کو جمع کرنے کی ممانعت کر دی۔ ارشادِ خداوندی ہے: 1. یٰٓاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّا اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةٌ عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَكُمْ اِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا وَّمَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْهِ نَارًا[3] اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے مالوں کو آپس میں ناحق مت کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے تجارت ہو اور اپنے لوگوں کو قتل نہ کرو۔ بیشک اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے اور جو شخص حد سے نکل کر اور ظلم سے ایسا کرے گا ہم اسے آگ میں داخل کریں گی۔ 2. وَالَّذِیْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّةَوَلَا يُنْفِقُوْنَھَا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ[4] اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ان کو درد ناک عذاب کی خبر دے۔
[1] (صحيح مسلم جلد ۵، ص ۵۰ کتاب البیوع باب لعن آکل الربا وموکلہ) [2] (بيہقی كتاب البيوع ج ۵، ص ۴۵) [3] (النساء: ۳۰:۲۹) [4] (التوبۃ: ۳۴)