کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 110
3. عن أنس قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: و الذي نفْسِي بِيدِهِ لَا يُؤْمِنُ أحَدُكُمْ، حتَّى يُحِبَّ لأخِيهِ ما يُحِبُّ لِنَفْسِهِ[1]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہ (بھلائی) نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔
ان کے علاوہ بعض اہم اصول مثلاً احساسِ ذمہ داری، نظافت و طہارت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اخوت اور مساوات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
معاشی زندگی:
جاہلیت کی معاشرتی زندگی کی طبقاتی تقسیم نے معاشی جدوجہد کو بھی متاثر کیا تھا۔ لوٹ کھسوٹ اور بد نظمی، معاشی زندگی کی خصوصیت تھی۔ سرمایہ دار طبقہ نے سود جیسی لعنت مسلط کر رکھی تھی۔ جس سے غریب کا خون نچڑ رہا تھا۔ معاشرتی زندگی کی برائی شراب نے جوئے کے ساتھ مل کر معاشی جدوجہد کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ ذرائع آمدنی پر مخصوص لوگوں کا قبضہ تھا۔ طریق صرف میں کسی اخلاقی اصول کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تھا۔ اور ہر معاشی جدوجہد خود غرضی اور سنگدلی پر مبنی تھی۔
رحمۃٌ لّلعالمین نے اس میدان میں بھی انسانیت کے لئے بہترین اصول و طرزِ عمل عطا کیا۔ سود، کو ختم کیا اور سب سے پہلے اپنے چچا کے سود کو باطل قرار دیا۔[2] آئندہ کے لئے سودی کاروبار کرنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا باغی قرار دیا۔ بیع و شرائع کے تمام باطل طریقے ختم کیے ۔[3] اور رزقِ حلال کی دعوت دی۔ جوئے اور شراب کو بند کیا اور اس کے ذریعے پیدا ہونے والی فضول خرچی کو شیطانی فعل سے تعبیر کیا۔ اقتصاد اور اعتدال کو معاشی زندگی کی روح قرار دیا۔ تمام غیر اخلاقی اور ظالمانہ طریقے بند کیے۔ تاکہ انسانوں کا کوئی طبقہ بھی ظلم کا شکار نہ ہو۔ رحمتِ نبوی نے مظلوم انسانیت کو سہارا دیا۔ قرآن و سنت نے آپ کا رحیمانہ طرزِ عمل بیان کیا۔ شراب اور جوئے کے بارے میں فرمایا۔
1. يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيْھُمَا اِثْمٌ كَبِيْرٌ
تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ ان دونوں میں بڑی برائی ہے اور
[1] نضرة النور شرح مختارات الاحاديث ج ۲ ص ۴۹ حديث ۱۵۰
[2] ابن ہشام جلد ۴ ص ۲۵۱
[3] بخاری۔ کتاب البیوع