کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 11
کی جکڑ بندیوں میں جکڑی ہوئی نہ تھی، ایسی کہ ان کی کمریں دو تہہ ہوئی جاتی تھیں اور اس وقت انسانی کاندھوں پر جو بوجھ لدے ہوئے تھے کیا انہوں نے ان کی زندگی کو تلخ نہیں بنا ڈالا تھا؟ قانون کے جو پھندے ان کی گردنوں میں، مذہبی آستانوں کے جو حلقے انکی گردنوں میں، مذہبی آستانوں کے جو حلقے ان کے جسموں میں لپٹے ہوئے تھے، کیا ان سے ان کی جسمانی و روحانی تسکین پا مال نہیں ہو رہی تھی؟ ہاں ایسا ہی تھا اس وقت کی صدہا اقسام کی مذہبی و قانونی جکڑ بندیاں ایک لعنت بن کر نسلِ انسانی و نوعِ بشری کے ساتھ چپک گئی تھیں اور انسانوں کے ساتھ انسانیت کا بھی خون ہو رہا تھا اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا، مستشرقین یورپ کی تحقیقی رپورٹ اور تاریخ کے اوراق بھی یہی کہتے ہیں۔
ظہورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور نوید امن:
عین اسی عالمِ یاس و آہ میں سر زمینِ مکہ سے ایک آواز بلند ہوتی ہے جو طالبانِ نجات کے لئے وجۂ نجات ثابت ہوتی ہے۔ یہ اعلان کوئی معمولی اعلان نہیں تھا۔ کیا اعلان؟ اعلان کہ ایک ہستی آئی ہے، کیوں آئی ہے؟ کرۂ ارضی پر بسنے والی نوعِ انسانی کے لئے پیامِ رحمت لے کر، زمین کی پیٹھ پر، اس طبقہ انسانی کے لئے، جس کی گردنوں میں ظالمانہ قانون کے پھندے اور پاؤں میں بے رحمانہ احکام کی بیڑیاں، کندھوں پر مصائب و آلام کے اور مشقت و مصیبت کے ناقابل برداشت بوجھ لدے ہوئے ہیں، پیغامِ آزادی لے کر، ہر اس کمر کے لئے جو بوجھ سے و تہہ اور ہر اس گردن کے لئے جو طرح طرح کے ظالمانہ جکڑ بندیوں میں کڑی ہوئی ہے، نویدِ امن لے کر آئی ہے۔
تاریخ کی شہادت:
یہ دو معیارِ تفتیش ہیں، جن کو لے کر میں بحث و نظر کے میدان میں آتا ہوں۔ حسن و اعتقاد کے ساتھ نہیں، تحقیق و تدقیق کے اصول پر‘ اپنا نظریہ نہیں، تاریخ کا بے رحمانہ فیصلہ، بے لاگ فیصلہ، وہ تاریخ جو کبھی کسی کے سامنے نہ جھک سکے۔ جس کو دنیا کی کوئی قوّت متاثر نہ کر سکے، جس کو دنیا کی کوئی دولت نہ خرید سکے، جسکو دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہ سکے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تاریخ کا فیصلہ کیا ہے؟ وہ فیصلہ جو حقیقت و تفصیل کی بنیاد پر ہو، وہ فیصلہ نہیں جو اعتقاد و تاویل کی بنا پر۔۔۔۔ پس اس سلسلے میں تمہارے سامنے دو معیاری چیزیں آئی ہیں:
1. ایک تمام کرۂ ارض کے لئے رحمت۔
2. دوسرے وہ تمام بوجھ جن سے نوع انسانی کو جکڑ بند کر دیا گیا تھا، اس سے نجات۔
یہ دو بنیادیں، یا قرآن کی بولی میں دو معیار ہاتھ آگئے، دو کسوٹیاں مل گئیں، ہم دیکھیں گے کہ بے رحم تاریخ کا اس معیار و کسوٹی کے مطابق فیصلہ کیا ہے؟
سیلاب ہستی میں چند حبابوں سے زیادہ حقیقت نہیں اگر ہم اپنے جذبات، اعتبار، پرستش و اعتقاد