کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 103
2. وَیَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّه [1]
اور جنہوں نے کفر کیا کہتے ہیں اس پر اس کے رب کی طرف سے نشان کیوں نہیں اتار دیا جاتا۔
3. وَقَالُوْا لُنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰي تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْبُوْعًا اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْھَارَ خِلَالَھَا تَفْجِيْرًا اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللهِ وَالْمَلٰئِكَةِ قَبِيْلًا اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰي فِي السَّمَآءِ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰي تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُه قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ ھَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلاً [2]
اور کہتے ہیں ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہمارے لئے اس زمین سے چشمہ بہا دے یا تیرا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو۔ پھر تو اس کے اندر خوب نہریں بہا نکالے۔ یا تو آسمان کو جیسا کہا کرتا ہے، ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دے یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ یا تیرا سونے کا گھر ہو یا تو آسمان میں چڑھ جائے اور ہم تیرے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے، جب تک کہ تو ہم پر کتاب نہ اتارے جسے ہم پڑھ لیں۔ کہہ تیرا رب پاک ہے میں صرف ایک بشر رسول ہوں۔
اس دعوتِ فکر کے ساتھ شرک اور مذہبی خداؤں کی خدائی کی نفی اس انداز سے کی کہ انسان خدا سے تعلق قائم کرنے لگا۔ بھولی ہوئی خدائی تک پہنچنے کا جذبہ پھر تازہ ہوا۔ اور خدا سے باغی انسان اطاعتِ الٰہی سے سرشار ہو گیا۔ اس کے لئے بھی عقلی اور فکری انداز ملاحظہ فرمائیں:
1. قُلْ لَّوْ کَانَ فِیْھِمَا اٰلِھَةٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا [3]
اگر ان دونوں میں اللہ کے سوائے (کوئی اور) معبود ہوتا تو دونوں بگڑ جاتے۔
2. اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَه وَاِنْ يَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ [4]
وہ جنہیں تم اللہ کے سوائے پکارتے ہو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے، گو وہ سب اس کے لئے اکٹھے ہو جائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چین لے جائے تو اسے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (دونوں) کمزور ہیں۔
[1] الرّعد: ۲۷
[2] بنی اسرائیل ۹۰-۹۱
[3] انبياء: ۲۲
[4] الحج: ۷۳