کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 101
دیا تھا۔ کہیں کہیں روشنی کی کرن دکھائی دیتی تھی لیکن وہ بھی اتنی مدھم کہ اس سے رہنمائی کا کام نہیں لیا جا سکتا تھا۔ مذہبی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے دھاندلی کا بازار گرم تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رحیمانہ طرزِ عمل سے ایک عظیم انقلاب بپا کیا اور انسان کو اس کے حقیقی مقام سے روشناس کرایا۔ صفت رحمت کی رحمۃٌ للّعالمینی کا ظہور پوری انسانی زندگی کو محیط کرتا ہے۔ لیکن ہم سہولت کے لئے انسانی زندگی کو چار بڑے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ ان حصوں میں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ یہ چار حصے صرف تعارف کے لئے ہیں ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی ایک جگہ محدود کرنا درست نہیں۔ وہ چار حصے یہ ہیں:
1. مذہبی
2. معاشرتی
3. معاشی
4. سیاسی
مذہبی زندگی:
مذہبی زندگی سے وہ امور مراد ہیں جو عبودیت اور پرستش سے تعلق رکھتے ہیں۔ انسانی زندگی کا وہ حصہ جس قدر اہم تھا اسی قدر مجروح تھا۔ شرک اور مذہبی جاگیر داری نے خود ساختہ شریعت کے ذریعے عوام کو مفلوج کر رکھا تھا۔ عقل و فکر کے استعمال پر قدغنیں تھیں۔ انسانی ذہن خرقِ عادت کی بازی گری سے آگے نہیں جا سکتا تھا۔ مذہبی خداؤں نے حلال و حرام کے لئے اپنے پیمانوں سے انسانی زندگی کو بوجھل بنا دیا تھا۔ جہاں کہیں پیغام ربّانی کی روشنی تھی اسے دو راز کار تاویلات اور تحریفات سے تاریک تر کر دیا گیا تھا۔ انسان اسی تاریک ماحول میں آنکھ کھولتا اور تاریکی کے انہی دبیز پردوں کے اندر ابدی نیند سو جاتا۔ رحمتِ نبوی نے انسان کو اس تاریکی سے نجات دلانے کی سعی فرمائی۔ اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل امور اختیار فرمائے۔
1. دعوتِ فکر و تدبیر
2. مذہبی خداؤں کی نفی
3. خود ساختہ قوانین کی تردید
معجزات اور خرقِ عادات کے عادی انسان کو پہلی مرتبہ یہ بات سمجھائی کہ پختہ کردار اور درست سیرت سب سے بڑا معجزہ ہے۔ عقل و فکر کی قوتوں سے کام لے کر خود کو، اور خالقِ کائنات کی حکمتوں کو سمجھنا ہی سب سے بڑا کام ہے۔ قرآنِ پاک میں اس پہلو پر بڑے بلیغ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً