کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 100
طائف کے تبلیغی سفر میں جو سلوک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور اس کے جواب میں رحمۃٌ للّعالمینی کا ظہور ہے۔ پتھر کھا کر اور گالیاں سن کر فرمایا: اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون[1] اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے بلاشبہ وہ نہیں جانتے۔ یہ کہنا دراصل اس خصوصیت کا اثر ہے، جسے رحمت کہتے ہیں۔ رحمت کی یہ خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ مکّی زندگی میں غلاموں کی آزادی[2] میں آپ کی کوشش اور مدنی زندگی میں رئیس المنافقین کے جنازے میں چلے جانا[3] اور اسے اپنا کر تہ پہنا دینا ، [4]مدینہ کے یہودیوں[5] اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ آپ کا حسنِ سلوک [6]نیز فتح مکہ کے موقع پر سنگ دل قریشیوں کو لا تثریب علیکم الیوم [7] آج تم پر کوئی الزام نہیں۔ مژدہ سنایا صفتِ رحمت ہی کا عمل اظہار ہے۔ آپ کی ذات رحمت ہے، آپ کا انفرادی طرزِ عمل رحمت ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجسمّ رحمت ہیں۔ رحمتِ نبوی: ’رحمت لّلعالمینی‘ کا ظہور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی زندگی میں ہوتا ہے اسی طرح پیغام اور تحریک میں بھی ہوتا ہے۔ جو اسلام کے نام سے شروع کی گئی۔ گویا یہ تحریک اور پیغام ایک رحمت ہے جو اس کائنات میں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے متعارف ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو جملہ مخلوقِ خدا کے لئے رحمت ہیں لیکن بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کے لئے رحمت ہیں۔ کیونکہ یہ اشرف المخلوقات ہیں۔ احادیث و سیرت کی کتابوں میں وہ تفصیلات موجود ہیں، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوانوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ اور آدابِ زندگی میں یہ بات بتائی کہ کائنات کی ہر شے مصروفِ تسبیح ہے۔ تمہیں اس خیال کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ہم یہاں رحمت کے صرف اسی پہلو کا ذِکر کریں گے جس کا تعلق انسانوں سے ہے۔ کیونکہ بات کو مختصر کرنا ہے ورنہ مضمون پھیل جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام انسانوں کے لئے خصوصی رحمت ہے۔ کیونکہ پیغامِ ربانی سے مسلسل انحراف اور خود ساختہ خداؤں کی بندگی نے عقل و فکر اور آزادی و آدمیت کی صحیح روح کو ختم کر
[1] ابن سعد جلد ۱ ص ۲۱۰ [2] ابن ہشام جلد ۱ ص ۳۳۹-۳۴۳ [3] ابن ہشام جلد ۲ ص ۳۷۸ [4] بخاری باب الکسوہ للاساری ص ۴۲۳ [5] بخاری جلد ۱ ص ۵۶۳ باب اتیان الیہود النبی صلی اللہ علیہ وسلم عین قدم المدینہ [6] ابن کثیر جلد ۲ ص ۳۷-۳۷۱ [7] ابن سعد جلد ۲ ص ۱۴۲