کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 10
ہوتی گئی اور اس وجودِ گرامی کا رحمۃٌ للّعالمین ہونا ہر اعتبار سے اور ہر نوعیت سے ثابت و درست ہوتا گیا۔ کسی محققّ کی بھی خواہ وہ کتنا ہی مخالف ہو، یہ مجال نہیں ہوئی کہ قرآنِ کریم کے اس معیار کو غلط ثابت کر سکے اور اس وجودِ اقدس کے اعمالِ حسنہ پر خوف رکھ سکے‘ اس کا ہر عمل بجائے خود دلیل بن کر پکارا کہ ہاں میں رحمت ہوں! اگر کسی نوعیت سے یہ رحمت نہ ہو تو پھر رحمت کون اور ہے کیا؟ تاریخ کو کون جھٹلا سکتا ہے کوئی بھی تاریخ اُٹھاؤ تو دیکھو گے کہ ہر امتیاز، ہر پرکھ ایک اُبھری ہوئی نشانی ہے۔ ہر عمل عملِ خیر اور معیارِ رحمت ہے‘ ایسا کہ ہر نظر، ہر نگاہ، ہر دل، ہر دماغ، اعتراف و تسلیم کرے گا کہ بلا شک و شبہ یہی وجودِ گرامی رحمتِ الٰہی ہے۔ بے کس اور مجبور انسان: دوسرا معیار، اس ذاتِ اقدس کے رحمۃٌ للّعالمین ہونے کا قرآنِ حکیم کی ایک دوسری آیت سے ثابت ہے جو سورۂ اعراف میں ملتی ہے‘ وہاں فرمایا: وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلَالَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط[1] اس آیت کا مقصد و نتیجہ کیا ہے؟ پہلے تم کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ’اصر‘ کے معنی کیا ہیں عربی میں ’اصر‘ کے معنی بوجھ کے ہیں۔ معمولی قسم کا بوجھ نہیں بلکہ ایسا ناقابلِ برداشت بارِ شدید جو کسی کو تہہ کر دے‘ اکثر آپ نے دیکھا ہو گا کہ کوئی شخص سر پر بوجھ اُٹھائے چلا جا رہا ہے لیکن شدّتِ بار سے اس کی کمر جھکی چلی جا رہی ہے۔ خم ہوئی جاتی ہے پھر اس طرح کی حالت کو عربی زبان میں اصر کہتے ہیں۔ ’اغلال‘ اغلال کے معنی ہیں، محنت و مشقت میں مبتلا، مفہومِ عام میں جکڑ بند رہنا۔ طرح طرح کے شدائد اور سختیوں میں مصائب و آلام میں محصور اور قسم قسم کے دام، بیڑیاں، پھندے، جن میں انسان قید و بند میں مبتلا رہے۔ غور کرو! قبل ظہورِ اسلام کیا اقوامِ عالم کی بالکل یہی حالت نہ تھی؟ تاریخ کے اوراق سے پوچھو۔ کیا وہ انہی آلام و مصائب کا علی الاعلان ثبوت پیش نہیں کر رہے؟ قبلِ بعثت کیا انسانی گردنوں میں طرح طرح کے پھندے، ان کے پاؤں میں قسم قسم کی بیڑیاں نہیں پڑی ہوئی تھیں؟ نسلِ انسانی کیا رنگ رنگ
[1] سورہ اعراف کی آیت 157 جس کا ترجمہ یہ ہے: جو الرسول کی پیروی کریں گے کہ نبی امی ہو گا اور اس کے ظہور کی خبر اپنے تورات اور انجیل میں لکھی پائیں گے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا، برائی سے روکے گا،پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا، گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا۔ اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوں گے اور ان پھندوں سے نکالے گا جس میں وہ گرفتار ہوں گے۔