کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 9
تم سے مدد طلب کریں تو ان کی مدد کرنا تم پر لازم ہے مگر اس قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا صلح کا معاہدہ ہو اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھتا ہے۔‘ ‘ (الانفال:۷۲)
یہاں یہ حال ہے کہ ایک صلیبی حملہ آور کی پشت پر دو دو صلیبی بنفس نفیس موجود ہیں اور انہیں ایک دوسرے کی پشت پناہی سے انکار نہیں اور یہاں ملت ِمسلمہ ایک، دین ایک، رسول اور ربّ بھی ایک، لیکن زبانی کلامی تائید کے علاوہ کسی قسم کی مدد سے سروکار نہیں …!!
اللہ کی مدد آئے تو پھر کیسے آئے…؟
اگر امریکہ کی پچاس ریاستیں مل کر سپر پاور بن سکتی ہیں تو کیا ۵۷/مسلم ممالک متحد ہوکر اس سے بڑی طاقت نہیں بن سکتے جبکہ نہ صرف عددی اعتبار سے بلکہ تیل، پٹرولیم، یورینیم اور ہر قسم کی معدنیات سے یہ مالا مال ہیں …؟
٭ منفی عوامل میں بدعملی، فسق و فجور، اللہ سے بغاوت اور ظلم و بربریت سب شامل ہیں ۔ عراق کی حکمران پارٹی ’البعث‘ کے ملحدانہ اور کمیونسٹ عقائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ عراقی صدر، اس کے جرنیلوں اور بعث پارٹی کے ورکروں کے ہاتھوں پچھلے بائیس برس میں جتنا کچھ ظلم ڈھایا گیا ہے شاید اسے عراقی علم پر ’اللہ اکبر‘ کا اضافہ بھی نہیں دھو سکا۔ یہ منظر تو سب نے دیکھا کہ بغداد کے ایک چوک سے عراقی صدر کے مجسّمے کو گرایا گیا، مسلمان مجاہد بت شکن ہوتے ہیں نہ کہ بت ساز، عراقی صدر کا یہ روپ ان کی اسلامیت کے لبادہ کو مشکوک قرار دیتا ہے۔ انسانی مجسّمے بت پرستی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ غیراللہ کی عظمت ذہن نشین کرواتے ہیں ۔ اسی لئے اسلام میں مجسمہ سازی کی اجازت نہیں بلکہ انہیں گرانے کا حکم دیا گیا ہے!!
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ بے جوڑ ہونے کے باوجود عراقی فوج اور مجاہدین نے مقابلہ تو خوب کیا لیکن اس کینسر زدہ جسم کی طرح جس کا کینسر سارے جسم میں پھیل چکا ہو، دواؤں نے کوئی کام نہیں کر دکھایا۔ شہید ہونے والے اپنی نیت کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے اور ظلم کرنے والے، کچھ تو اپنے انجام کو پہنچ گئے اور کچھ اپنی میعاد پوری کرکے اسی انجام کو پہنچیں گے جو ہر فرعونِ وقت کے لئے مقدر ہوچکا ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العٰلمين
٭٭