کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 8
باہمی نزاع کا بدانجام بھی ذکر فرمایا:
﴿وَأطِيْعُوْا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا إنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِيْنَ﴾
’’اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اورآ پس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ کم ہمت ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور (لڑائی کی تکلیفوں پر) صبر کرو، بلا شبہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (الانفال:۴۶)
٭ غور فرمائیے کہ جنگ ِاُحد میں خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میدان میں موجود ہیں ، آغاز ہی میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوجاتا ہے، لیکن پھر ایسا وقت بھی آیا کہ فتح ہزیمت میں بدلتی نظر آنے لگی، بڑے بڑے جری میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف چند جاں نثاروں کے ساتھ تنہا رہ گئے۔ایسا کیوں ہوا؟ اس آیت میں اس کا جواب موجود ہے، اور وہ ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی۔ یعنی عدمِ اطاعت ِرسول اور آپس میں اختلاف…!!
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل اُحد کی ایک جانب واقع گھاٹی پر پچاس تیر انداز مقرر کئے تھے اور انہیں ہدایت کی تھی کہ وہ ہر صورت گھاٹی پر مورچہ قائم رکھیں ، یہاں تک کہا کہ چاہے ہماری لاشیں چیل اور کوے اُچک کر لے جائیں تم اس گھاٹی کو نہ چھوڑنا۔ لیکن جونہی مسلمانوں کو فتح ہوئی، گھاٹی کے اکثر تیر اندازوں نے کہا کہ ہم جاکر کیوں نہ مالِ غنیمت میں حصہ لیں ۔ جنگ تو جیت ہی چکے ہیں ۔اب ایک طرف ان کے امیر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت بھی ہوئی اور جونہی یہ لوگ گھاٹی چھوڑ کر چلے گئے، خالد بن ولید نے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، اسی گھاٹی کی طرف سے حملہ کردیا، یہاں چند تیر انداز رہ گئے تھے جو جم کر لڑے لیکن ایک کے بعد ایک گرتے گئے اور یوں مسلمانوں کو ایک غیر متوقع یلغار کا سامنا کرنا پڑا اور پھر وہ کیفیت پیدا ہوئی جس کا تذکرہ سورۂ آل عمران کی ان آیات میں آچکا ہے جو آغاز میں ذکر کی گئیں ۔
٭ منفی عوامل میں باہمی امداد کرنے کا فقدان بھی ہے۔اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں :
﴿ وَإنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِیْ الدِّيْنَ فَعَلَيْکُمُ النَّصْرُ إلاَّ عَلٰی قَوْمٍ بَيْنَکُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيْثَاقٌ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ﴾
’’اور اگر دین کے بارے میں وہ (کمزور مسلمان)