کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 7
دھاک بٹھائے رکھو نیز ان کے سوا ان لوگوں پر بھی جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ انہیں خوب جانتا ہے۔‘‘ یہ نہیں کہا گیا کہ دشمن کے برابر قوت فراہم کرو بلکہ کہا گیا ’جتنی تم سے ہوسکے۔‘ ٭ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرما دیا:ألا إن القوۃ الرمي(جان لو کہ’ رمی‘ ہی قوت ہے) ’رمی‘ پھینکنے کو کہتے ہیں ۔ اس زمانہ میں تیر پھینکے جاتے تھے، اب یہی لفظ گولوں ، بموں اور میزائلوں پربھی صادق آتا ہے۔ جب مسلمانوں نے تمدن کی ترقی کے ساتھ جدید سہولیات اور آسائشوں کے لیے جدید اور ٹیکنالوجی کو اپنایا ہے تو اسی طرح آلاتِ حرب میں بھی جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول مسلمانوں پر لازم ہے، اُمت ِمسلمہ نے مجموعی طور پر اس امر میں کوتاہی کی ہے تو آج یہ روزِ بد دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ٭ اور پھر جب دشمن سے مقابلہ ہوجائے تو ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جائے : ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوْا ﷲَ کَثِيْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ ’’اے ایمان والو! جب تم کسی گروہ کے مقابل آؤ تو ثابت قدم رہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاسکو۔‘‘ (الانفال:۴۵) ٭ قرآن میں جابجا صبر اور مصابرت کا ذکر ہے جس میں مصائب پر صبر کے ساتھ ساتھ دشمن کے مقابلہ میں جمے رہنے کا مفہوم داخل ہے۔ ٭ اب آئیے ان منفی عوامل کی طرف جن سے بچنا لازم ہے : ٭ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کے بعد تذکرہ فرمایا: ﴿وَلاَ تَفَرَّقُوْا﴾ اور ’’تفرقہ پیدانہ کرو۔‘‘ ایسی جماعتیں جو متحد ہوکر مشترک مقاصد کے لئے کام کریں وہ تو عقاب کے ان پروں کی مانند ہیں جو اسے اونچا اُڑنے میں مدد دیتے ہیں لیکن وہ جماعتیں جو آپس ہی میں دست بگریبان ہوں ، باہم برسرپیکار ہوں ، ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک پڑھنے کی روا دار نہ ہوں ، وہ اُمت ِمسلمہ کو دیمک کی طرح چاٹ تو سکتی ہیں ، اسے جلا نہیں دے سکتیں ۔