کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 6
اللهم إن تهلک هذه العصابة من أهل الإسلام لا تعبد في الأرض ’’اے اللہ! اگرمسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر اس زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ (مسلم؛۱۷۶۳) ٭ اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی مدد بھی بھیجی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو ان قرآنی آیات میں لازوال بنا دیا : ﴿إذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلاَئِکَةِ مُرْدِفِيْنَ﴾ ’’(یاد کرو) جب تم اپنے ربّ سے استغاثہ کررہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سن لی اور (کہا) کہ میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کررہا ہوں جو یکے بعد دیگرے آئیں گے۔‘‘ (الانفال:۹) دیکھئے یہاں مدد طلب کرنے کے لئے ’استغاثہ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے غوث سے ایسی مددطلب کرنا جو ماوراے اسباب ہو، جس تک ہماری پہنچ بھی نہ ہو۔ ایسی مدد صرف اللہ کی طرف سے آسکتی ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ’غوث‘ بلکہ ’غوثِ اعظم‘ نبی تو درکنار ایک امتی بزرگ کو سمجھتی ہے۔ امداد کن، امداد کن کی صدائیں ’غوثِ اعظم‘ کو دی جاتی ہیں ۔ حالانکہ یہ بزرگ اپنی زندگی میں توحید کو قائم کرنے والے تھے، ان کی تالیف غنیۃ الطالبین کو پڑھ لیں وہ تو اللہ کو پکارنے کی دعوت دیں لیکن ان کے نام لیوا انہی کی مخالفت بھی کریں اور پھر توقع کریں کہ اللہ کی نصرت آئے گی!! ٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تگ ودَو کی حد تک عسکری اسباب فراہم کرنے کے بعد میدانِ بدر میں پہنچتے ہیں ۔ یہی وہ قوتِ مرہبہ(ڈرانے والی قوت) ہے جس کا ذکر سورۂ انفال میں ان الفاظ کے ساتھ ہوا : ﴿وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهِ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ، لاَ تَعْلَمُوْنَهُمْ اَللّٰهَ يَعْلَمُهُمْ﴾ (الانفال:۶۰) ’’اور (اے مسلمانو) جہاں تک تم سے ہوسکے، قوت کی فراہمی کرو اور (کافروں ) کے مقابلہ کے لئے گھوڑے تیار بندھے رکھو تاکہ اس طرح اللہ کے اور اپنے دشمنوں پر