کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 5
ایجابی عوامل میں سرفہرست یہ ہیں :
قوتِ ایمانیہ، قوتِ مرہبہ (ڈرانے والی طاقت) اور دورانِ قتال صبروثبات
٭ جو آیت سب سے پہلے ذکر کی گئی ہے، اس میں سربلندی و سرفرازی کے لئے ایمان کو بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے۔﴿وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ ﷲِ جَمِيْعًا﴾کہہ کر اس ایمان کی بنیاد فراہم کردی گئی ہے، اور یہ ایمان بھی ایسا ایمان جو سرد رات میں دہکتی ہوئی انگیٹھی کی طرح سارے ماحول کو گرما دینے والا ہو، ایسا ایمان جو اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لئے انسان کو جگائے رکھے :
٭ ﴿إنْ تَنْصُرُوْا ﷲَ يَنْصُرْکُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ﴾ (محمد:۷)
’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔‘‘
اللہ کی مدد؛ اس کے دین کو خود اپنی زندگی میں ، اپنے خاندان میں ، اپنے معاشرہ میں قائم کرنا ہے، اسے تقریر و تحریر سے، سلوک و عمل سے، مسلسل جدوجہد سے پھیلانا اور عام کرنا ہے۔ یہ شروط پوری ہوں گی تو وعدۂ نصرت بھی پورا ہوگا۔ دین کا سب سے بڑا ستون نماز ہے اور اس کا قرین زکوٰۃ ہے۔ خود ہی اندازہ لگالیں کہ ہمارے معاشرہ میں ان دونوں ستونوں کو قائم کرنے والوں کی نسبت کیا ہے۔
٭ ایمان کے سوتے حبل اللہ (قرآن) سے پھوٹتے ہیں ، قرآن کا جزوِ اعظم توحید ِباری تعالیٰ کا اقرار اور تمام عبادات کو خالص اللہ کے لئے قرار دینا ہے :
﴿قُلْ إنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْيَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ﴾ (الانعام:۱۶۲)
’’کہہ دیجئے کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت صرف اللہ ربّ العالمین کے لئے ہے۔‘‘
قرآن میں کتنے انبیا کی دعاؤں کا ذکر آیا ہے۔ سب نے جب بھی مدد کے لئے پکارا ہے، اللہ کو پکارا ہے۔ خو داللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر میں تین سو تیرہ جاں نثاروں کے ساتھ میدانِ بدر میں پہنچ جانے کے بعد اپنے خیمہ میں ساری رات دعاؤں میں گزار دیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے طالب ِنصرت ہیں ۔ زبان پر یہ الفاظ ہیں :