کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 4
اتنی طاقتور ہو کہ بلا کو پاش پاش کردے یا اس کی حدت میں کمی کروا دے اور یا پھر اتنی کمزور ہو کہ بلا کے سامنے کسی صورت ٹھہر نہ سکے۔ موجودہ صورتِ حال میں ہمیں نہیں معلوم کہ دعاؤں نے کہاں تک اثر کیا۔ ہوسکتا ہے کہ بلا میں تخفیف کی شکل رہی ہو۔ ۱۲۵۸ء میں جب تاتاریوں کے ہاتھوں سقوطِ بغداد ہوا تھا اور آخری عباسی خلیفہ المستعصم باﷲ کو قالین میں لپیٹ کر اوپر گھوڑے دوڑا دیے گئے تھے، بغداد میں ایسی تباہی آئی تھی کہ جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ اس کثرت سے لوگ قتل کئے گئے کہ دریائے دجلہ کا پانی چالیس دن تک سرخ رہا۔ گلی کوچوں میں بے گوروکفن لاشیں پڑی تھیں اور ان کو کوئی دفنانے والا نہیں تھا، یہاں تک کہ ان کے تعفن سے وبا پھیل گئی جس کا اثر سرزمین شام تک پھیل گیا۔ مسلمانوں کا سارا علمی سرمایہ دریا برد کردیا گیا اور یہی وہ نقطہ آغاز تھا کہ مسلمانوں کی علمی ترقی رک گئی۔ دعا کو طاقتور بنانے میں اخلاصِ نیت کا، نیک اعمال کا اوررزقِ حلال کا بڑا دخل ہے۔ اگر ان تین پیمانوں سے بھی مسلمان اپنے آپ کو جانچیں تو اکثر کو خفت اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گااور پھر یہ بھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بتایا ہے کہ دعا کے ساتھ تین طرح کا سلوک کیا جاتا ہے، یا تو وہ(فوراً یاکچھ تاخیر سے) قبول ہوجاتی ہے (یعنی انسان جو مانگتا ہے اسے پالیتا ہے) یا اللہ تعالیٰ اس کی مانگ کے عوض میں کوئی اور آنے والی مصیبت اس سے ٹال دیتے ہیں کہ( علم الٰہی میں وہی اس کے لئے بہتر تھا) یا اس دنیا میں تو اسے اپنا مطلوب نہیں ملتا لیکن یہ دعا اس کے لئے توشۂ آخرت بن جاتی ہے۔(مسند احمد:ج۳/ص۱۸) نصرتِ الٰہی کیوں نہ آئی؟ اب آئیے، دوسرے موضوع کی طرف کہ نصرتِ الٰہی کیوں نہ آئی؟ یاد رہے کہ اللہ کی نصرت حاصل کرنے کے لئے کچھ ایجابی عوامل ہیں جن کا حصول انتہائی ضروری ہے اور کچھ منفی عوامل ہیں جن سے پرہیز کیے بغیر چارہ نہیں …!