کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 32
عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے، میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں تم مؤمن نہیں ہوسکتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کی قسم! اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَب، اے عمر ! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو) (فتح الباری: ۱/۵۹) سورۂ توبہ ، آیت نمبر ۲۴ میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿قُلْ إنْ کَانَ اٰبَاؤکُمْ وَاَبْنَاءُ کم وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِيْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَهَا اَحَبَّ إلَيْکُمْ مِنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِیْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی يَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهِ ﴾ ’’(اے نبی! مسلمانوں سے)کہہ دیجئے! اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں ، اپنے کنبے والے اور وہ اَموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیں ـ؛ اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔‘‘ اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔اس لئے انہی چیزوں سے مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو تب ایمان کا دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے۔ اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین وجائیداد اور تجارت اور پسندیدہ مکانات خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ محبت ایک فطری کشش کا نام ہے، ایک ایسا میلانِ نفس جو ہمیشہ پسندیدہ اور مرغوب چیزوں کی جانب ہوا کرتا ہے۔ یہ محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو ’طبعی محبت‘کہلاتی ہے