کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 3
ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے کون ہیں جو جہاد کرنے والے ہیں اورکون ہیں جو (مصیبت میں ) صبر کرنے والے ہیں ؟ اور تم تو موت کو سامنے آنے سے پہلے (راہِ حق میں ) مرنے کی تمنا کررہے تھے ، سو (وہ اب تمہارے سامنے آگئی اور) تم نے اس کو کھلی آنکھوں دیکھ لیا۔‘‘ سقوطِ بغداد کی شکل میں ایک عظیم سانحہ پیش آچکا ہے، ذہنوں میں کئی سوال کلبلا رہے ہیں جن میں دو سوال بار بار کئے جارہے ہیں ۔ اوّل تو یہ کہ دنیا کے کروڑوں مسلمانوں نے ہاتھ پھیلا پھیلا کر، عاجزی اور انکساری کے ساتھ دورانِ جنگ دعائیں کی، نمازوں میں قنوتِ نازلہ کا اہتمام کیا لیکن یہ ساری دعائیں بے اثر رہیں ؟ …آخر ایسا کیوں ہوا؟ دوم، یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی نصرت کا وعدہ کیا ہے لیکن اس موقع پر نصرتِ الٰہی کیوں نہیں آئی؟ دعائیں کیوں بے اثر رہیں ؟ شروع میں جو آیات تلاوت کی گئی ہیں ، ان کا تعلق تو دوسرے موضوع سے ہے، لیکن پہلی بات کے ضمن میں عرض ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی قوم پرمصیبت مقدر کردی جائے تو کیا اسے ٹالا جاسکتا ہے؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے۔‘‘ یعنی انسان کے مقدر میں کسی مصیبت کا واقع ہونا لکھا ہوتا ہے، انسان خلوصِ دل سے دعا کرتا ہے تو یہ بہ تقدیر ٹل جاتی ہے۔ دراصل اس مصیبت کا نازل ہونا مگر دعا کی وجہ سے ٹل جانا خود تقدیر ہی کا ایک حصہ تھا، جہاں مصیبت لکھی گئی تھی وہاں یہ بھی مقدر تھا کہ انسان دعاکرے گا اور وہ مصیبت ٹل جائے گی۔ لیکن کیا ہر دعا مصیبت کو ٹال سکتی ہے…؟ اس کا جواب بھی الصادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا کہ آسمان سے مصیبت کا نزول ہوتا ہے اور زمین سے دعا اٹھتی ہے: الدعاء والبلاء يتعالجان٭’’دعا اور مصیبت دونوں کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔‘‘ اب یہ دعا کی طاقت پر ہے کہ یا تو وہ ٭ اس کی سند ضعیف ہے۔ (تلخیص الحبیر: ج۴/ص ۱۲۱ از حافظ ابن حجر)