کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 29
۳۔ امام مالک اور امام طرطوشی اور ان دونوں کے اصحاب رحمہم اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر نماز کے بعد فارغ ہوتے ہی امام کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا لازم ہے۔ ۴۔ عندالاحناف بھی امام کا فجر و عصر کے سوا نماز کے بعد تین بار استغفار اور دعا اللهم أنت السلام… الخ سے زیادہ دیر بیٹھنا مکروہ ہے۔ اس دعا میں نہ رفع یدین ہے، نہ اجتماعیت۔ امام و مقتدی ہر شخص بلا رفع یدین سراً وانفراداً یہ مختصر سی دعا مانگ کر سنتوں میں مشغول ہوجائے۔ فجر و عصر کے بعد اس شرط سے بیٹھنا جائز ہے کہ اوراد و اَدعیہ میں امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی رابطہ نہ رہے۔ نماز کے بعد کی دعا میں اجتماعیت بدعت ہے۔ امام ہو یا مقتدی ہرشخص اپنے طور پر انفراداً، سراً بلا رفع یدین دعا مانگے۔ فرض کے بعد کی دعا میں رفع یدین نہیں ، البتہ کبھی کبھار کسی خاص ضرورت سے کوئی دعا مانگنا چاہے تو رفع یدین کرسکتا ہے مگر دوسروں کے سامنے التزام نہ کرے تاکہ کسی کو فرض کے بعد کی دعا میں رفع یدین کا شبہ نہ ہو۔ ۵۔ نوافل کے بعد انفراداً ہاتھ اٹھا کر طویل دعا مسنون ہے۔ ۶۔ دعا کے لئے اجتماع بدعت ہے، البتہ کسی دوسرے مقصد کے لئے اجتماع ہو تو اس میں اجتماعی دعا جائز ہے۔ والله الهادي إلی سبيل الرشاد وهو العاصم من المحدثات في الدهن والبدع والضلال (۹/ ربیع الاوّل ۱۴۰۹ھ) اس تالیف کے صفحات ۲۰ تا ۲۴ پر مذکورہ بالا فتویٰ کی موافقت اور تائید میں عصر حاضر اور ماضی قریب کے اکابر کی تحریرات بھی کلمۃ الجامع کے عنوان کے تحت پیش کی گئی ہیں ۔ مندرجہ بالا فتویٰ مندرجہ ذیل آیاتِ مبارکہ کے بھی عین موافق معلوم ہوتا ہے : ﴿اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً اِنَّهٗ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ﴾ (الاعراف:۵۵) ﴿وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخيَفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ﴾ (الاعراف:۲۰۵) اگرچہ کچھ حنفی دیوبندی مساجد میں بھی نماز کے بعد اجتماعی دعا اور دعا بعد الفرائض میں رفع یدین کی بدعت آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے لیکن حنفی مساجد میں اس فتویٰ پر عمل درآمد کی رفتار بہت سست ہے جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ فتویٰ مذکورہ بالا تالیف کے اَوراق میں ہی دَب کر رہ گیا ہے، عوام کے سامنے آیا ہی نہیں ۔ اس تالیف میں بھی یہ فتویٰ، فتویٰ کے عنوان سے نہیں بلکہ ’حاصل کلام‘ کے عنوان سے چھپا ہے۔ اس طرح یہ فتویٰ عوام کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس فتویٰ کی خوب تشہیر ہو تاکہ لوگ اس