کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 27
اکثرحنفیوں کی ایجاد ہے۔ اس کو دین کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے۔ کیا ان ممالک میں رہائش پذیر سب جاہل اور مسئلہ ہذا سے نابلد ہیں ، حقیقت ِحال اس کے برعکس ہے۔ ٭ ہم سب کا فرض ہے کہ اس پر غوروفکر کریں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِهَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت:۶۹) ’’اور جن لوگوں نے ہمارے لئے کوشش کی، ہم ان کو ضرور اپنے رستے دکھا دیں گے۔‘‘ بنابریں کتاب و سنت کے سچے اور مخلص داعی کا فرض ہے کہ قائلین اور فاعلین سے اس سلسلہ میں نص صحیح وصریح کا مطالبہ کرے۔ بصورتِ دیگر ان کو اپنے غلط موقف سے رجوع پرمجبور کرے۔ والتوفیق بیداللہ دیگر ضمنی سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں : ۱۔ اہلحدیث کا مسلک چونکہ کتاب و سنت ہے بسااوقات نصوص کے فہم کی بنا پر اختلاف پیدا ہوجاتا ہے، اس بنا پر یہ فعل قابل مذمت نہیں ۔ ٭ حافظ صاحب کے تفصیلی فتویٰ سے یہ شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ آپ اجتماعی دعا کی مطلق طور پر نفی کررہے ہیں بلکہ بعض استثنائی صورتوں میں آپ اجتماعی دعا کے قائل ہیں مثلاً ہفت روزہ الاعتصام (ج۵۴/ عدد۱۶ بابت ۲۶/اپریل تا ۲ مئی۲۰۰۲ء :ص۹) میں حافظ صاحب ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رقم طراز ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بارش کے لئے اجتماعی دعا کی تھی چنانچہ صحیح بخاری میں ہے ’’فرفع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدیہ یدعو ورفع الناس أیدیھم معہ یدعون…‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ِحاجت یا ضرورت اور کسی سبب کی بنا پر اجتماعی دعا کا جواز ہے۔ ٭ اسی طرح ایک اور سائل کا جواب دیتے ہوئے حافظ صاحب رقم طراز ہیں ’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف فرما تھے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ نے تو اس اُمت کو تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے۔ لہٰذا آپ اور دوسرے لوگ بھی آپ کے ساتھ توبہ کریں ۔ علقمہ کا بیان ہے کہ آپ نے قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھائے اور فرمایا اللھم إنی استغفرک و أتوب إلیک اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ ہاتھ اٹھائے۔ ٭ اسی طرح موصوف اپنے ایک فتویٰ (الاعتصام، ۱۲/ جنوری ۲۰۰۱ ص۱۱) میں رقم طراز ہیں کہ ’’ہمارے شیوخ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ اور محدث گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ نماز کے بعد اجتماعی دعا کے عملاً قائل و فائل نہ تھے، الا یہ کہ کسی کی طرف سے دعا کی درخواست ہو۔ چنانچہ مقتدیوں میں سے کسی کے تقاضے پر یا امام کی کسی ضرورت اور مطالبے پر اجتماعی دعا کرنا جائز ہے جبکہ اسے نمازوں میں معمول بنا لینا خلافِ سنت ہے۔‘‘ (محدث)