کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 26
۲/۱۸۲) …اور یہ بات حضرت عمر سے بھی منقول ہے۔ (سنن کبریٰ بیہقی: ۲/۱۸۲) … فقہ مالکی کی کتاب المدونۃ میں امام مالک کا قول منقول ہے کہ امام کو سلام کے فوراً بعد اُٹھ کر چلے جانا چاہئے، بیٹھے نہیں رہنا چاہئے۔ ا ن آثار کو ذکر کرنے سے مقصود عملاً اجتماعی دعا کی نفی ہے ورنہ اگر کوئی بیٹھا رہے تو اسکابھی جواز ہے جس طرح کہ دیگر روایات میں تصریح ہے ۔ فتوی اللجنۃ الدائمۃ سعودی عرب میں کبار علما پر مشتمل اللجنۃ الدائمۃ نے بھی اس بارے میں فتوی صادر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں ’’عبادات کی جملہ اقسامِ توقیفی ہیں ۔جس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی ہیئات اور کیفیات کا طریق کار کتاب و سنت سے ثابت ہونا چاہئے۔ نماز کے بعد اجتماعی دعا کی مزعومہ صورت کا ثبوت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر سے نہیں ملتا۔ ساری خیر اسی میں ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی پیروی کریں ۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو وِرد و و ظائف پڑھتے تھے، وہ مستند دلائل سے ثابت ہیں بعد میں انہی وظائف پر آپ کے خلفاء راشدین،صحابہ کرام اور ائمہ سلف صالحین کار بند رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے خلاف جو طریقہ ایجاد کیا جائے گا، وہ مردود ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهوردّ جو دین میں نیا طریقہ ایجاد کرے، وہ ناقابل قبول ہے۔ جو امام سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور اس کے مقتدی بھی ہاتھ اٹھائے آمین، آمین کہتے ہیں ، ان حضرات سے مطالبہ کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے دلیل پیش کریں ورنہ اس عمل کی کوئی حقیقت نہیں ، وہ ناقابل قبول اور مردود ہے۔ جس طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِيْنَ﴾ سنت سے ہمیں کوئی دلیل نہیں ملی سکی جو ان کے دعویٰ کی مستند بن سکے۔‘‘ ( فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ :۷/۹۹) اس فتویٰ کو میں نے اپنی عربی تصنیف جائزۃ الأحوذي في التعلیقات السلفیۃ علی سنن الترمذي میں بھی درج کیا۔ راقم السطور نے بلادِ عربیہ کا بالعموم اور سعودی عرب کا بالخصوص متعدد مرتبہ دورہ کیا ہے، کسی مقام پرنماز کے بعد اجتماعی دعا کا عمل نظر نہیں آیا۔ دراصل یہ برصغیر میں ہندوستانی اور پاکستانی بعض سلفیوں اور