کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 25
بدعت قرار دیتے تھے اور عبداللہ بن عمر نماز کے اِتمام پر فوراً کھڑے ہوجاتے یا جاے نماز سے اُٹھ جاتے۔ (کتاب الصلوٰۃ باب من قال یستحب إذا سلم أن یقوم وینحرف: ۱/۳۰۱)
حضرت ابو عبیدہ بن جراح کی سلام کے بعد ایسی کیفیت ہوتی، گویا گرم پتھر پر تھے۔ فوراً اُٹھ کھڑے ہوتے۔ (ابن ابی شیبہ :۱/۳۰۲)
نیز صحیح حدیث میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لم يقعد إلا مقدار مايقول: اللهم أنت السلام…الخ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد اللهم أنت السلام پڑھنے کے مقدار برابر بیٹھتے۔‘‘
(صحیح مسلم:کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ وبیان صفتہ)
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس طرح مروی ہے۔ اگرچہ اہل علم نے اس حدیث کی مختلف توجیہیں کی ہیں مگر ایک ظاہری توجیہ یہ بھی ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں کہ سلام پھیرنے کے بعد آپ فوری تشریف لے جاتے۔
حسن بصری سلام کے بعد پیچھے ہٹ جاتے یا فوراً اُٹھ کر چلے جاتے۔( مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۳۰۲) …اور طاؤس جب سلام پھیرتے تو بلا توقف فوراً اُٹھ کر چلے جاتے، بیٹھتے نہیں تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۳۰۲)… ابن مسعود رضی اللہ عنہ جب سلام پھیرتے تو صف سے اُٹھ کر مشرق یا مغرب کی طرف چلے جاتے۔ (مصنف عبدالرزاق: رقم ۲،۳۲۲۱/۲۴۳ اور مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۳۰۲)… نسائی میں ہے کہ حضرت انس فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ہلکی اور پوری پڑھا کرتے تھے، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے ہی اُٹھ جاتے، پھر میں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی، وہ بھی سلام کے بعد کود کر اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے، گویا کہ گرم پتھر پر تھے۔ (صحیح سنن نسائی: رقم۷۹۴ للالبانی) … ابوالزناد کہتے ہیں کہ میں نے خارجہ بن زید سے سناکہ وہ ان اماموں کے عمل کو کوتاہی شمار کرتے تھے جو سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے رہتے ہیں اور فرماتے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ امام اٹھ کر فوراً چلا جائے۔ (سنن کبریٰ بیہقی:۶/۱۸۳) …شعبی اور ابراہیم نے بھی بیٹھے رہنے کو مکروہ سمجھا ہے۔ (سنن کبریٰ بیہقی: