کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 22
3. ان حضرات کا استدلال حضرت ابوہریرہ کی اس روایت سے بھی ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رخ ہوکر یہ دعاکی: اللهم خلص الوليد بن الوليد وعياش بن أبی ربيعة … الخ
(تفسیر ابن کثیر :۱/۵۵۵)
اس روایت میں کئی باتیں محل نظرہیں …اوّل، تو اس میں بھی اجتماعی دعا کا ذکرنہیں ۔ ثانیاً، اس میں راوی علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے۔ ثالثا ً،اس روایت کی تین سندیں اور بھی ہیں جن میں رکوع کے بعد اس دعا کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علی بن زید کو روایت میں وہم ہوا ہے کیونکہ مذکورہ دعا قنوتِ نازلہ تھی۔
4. ان حضرات کا استدلال فضل بن عباس سے مروی اس روایت سے بھی ہے کہ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز دو رکعت ہے۔ ہر دو رکعت میں تشہد بیٹھو یعنی سلام پھیرو۔ خشوع و خضوع اور اطمینان کرو پھر دونوں ہاتھوں کو اپنے ربّ کی طرف سیدھے پھیلاؤ اور یاربّ یاربّ کہو۔ جو شخص ایسا نہیں کرے گا، اس کی نماز ناقص ہوگی، ناقص ہوگی اور ایک دوسری روایت میں اس شخص کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ایسا ایسا ہے۔‘‘
یہ روایت مسنداحمد، ترمذی، ابویعلی اور ابن خزیمہ وغیرہ میں ہے۔ اس کے بھی متعدد جوابات ہیں : 1. اس کی سند میں عبداللہ بن نافع بن ابی العمیاء مجہول راوی ہے۔2. اس روایت کا تعلق نفلی نماز سے ہے کیونکہ فرض نماز تو تین اور چار رکعت بھی ہوتی ہے۔ ائمہ حدیث ابوداود، ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور بیہقی اس کو ’باب صلوٰۃ اللیل والنہار‘ کے تحت لائے ہیں اور امام ترمذی نے اس کو ماجاء في التخشع في الصلاۃ میں ذکرکیا ہے۔ 3.اگر اس روایت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس میں اجتماعی دعا کا ذکر ہی نہیں کیونکہ اس میں تو سب صیغے واحد کے ہیں ۔
5. ان لوگوں کا استدلال حضرت عبداللہ بن زبیر کے ایک اثر سے بھی ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو سلام پھیرنے سے پہلے ہاتھ اٹھائے دیکھا تو کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فراغت کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے تھے۔‘‘ (مجمع الزوائد)
واقعہ کے سیاق سے ظاہر ہے کہ یہ آدمی دوسروں کے سامنے انفراداً نماز پڑھ رہا تھا۔ اس لئے یہ قصہ نفلی نماز کا ہے، نہ کہ فرض کا۔ بنا بریں زیر بحث مسئلہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔
6. نیز ان کا استدلال اس روایت سے بھی ہے کہ جو آدمی ہر نماز کے بعد اپنے دونوں