کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 21
اختلاف ہی نہیں کہ جس طرح حالت نماز میں ذِکر ہیں ، اسی طرح سلام پھیرنے کے بعد بھی بہت ساری دعائیں پڑھنا مسنون ہیں ۔ہر مقام پر یہ سمجھ لینا کہ ہاتھ اُٹھائے بغیر دعا کا کوئی تصور نہیں ، ایسا تصور جہالت اور شرعی نصوص سے لاعلمی پر مبنی ہے۔
2. اجتماعی دعا کے قائلین کا استدلال مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت سے بھی ہے جو یزید بن اسود عامری سے مروی ہے کہ
صليت مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم الفجر فلما سلم انحرف ورفع يديه ودعا
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو قبلہ کی طرف سے منہ موڑ کر دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا کی۔‘‘ (مصنف، کتاب الصلوٰۃ : ۱/۳۰۲)
اس روایت کی سند بھی ’حسن ‘ درجہ کی ہے مگر اس میں ورفع یدیہ ودعاکے الفاظ نہیں ۔٭
یہ حدیث ابوداود، نسائی، ترمذی اور مسنداحمد وغیرہ میں بھی ہے مگر ان میں بھی مذکورہ الفاظ نہیں ۔
٭ مصنف ابن ابی شیبہ کی کتاب ا لصلاۃ باب من کان یستحب إذا سلم أن یقوم أو ینحرف (۱/۳۰۲)
میں یہ روایت موجود ہے لیکن ’ورفع یدیہ ودعا‘ کے الفاظ اس میں موجود نہیں جیسا کہ محترم حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے۔ان الفاظ کے اضافے کا معاملہ بھی ایک داستان ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ چند اہل علم نے غلط فہمی سے اسے اپنی کتابوں میں نقل کردیا اور ان کے بعد میں آنے والے دیگر اہل علم بھی اصل کتاب سے مراجعت کئے بغیر حوالہ دیتے رہے۔ مثلاً شیخ محمد بن مقبول الاہدل یمنی (متوفی ۱۲۵۸ھ) نے سب سے پہلے اپنے رسالہ سنیۃ رفع الیدین في الدعا بعد الصلات المکتوبۃ میں اسے ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے نقل کیا۔ اسی طرح شیخ عبدالحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’النافع الکبیر‘ کے آخر میں ’فرض نمازوں کے بعد دعاے اجتماعی‘ کے ثبوت کے لئے اس سے ملتی جلتی روایت ابن السنی کی سند سے ذکر کی۔ پھر ابن ابی شیبہ ہی کی روایت کی بنیاد پر سید نذیر حسین دہلوی، محمد عبدالربّ، سید حسین احمد وغیرہ نے بھی فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ دیکھئے فتاویٰ نذیریہ: ج۱/ ص۵۶۶، ۵۷۰۔ اسی طرح حافظ عبداللہ روپڑی نے بھی ابن ابی شیبہ کی اس روایت کے پیش نظر فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کے ثبوت کا فتویٰ دیا۔ دیکھئے فتاویٰ اہلحدیث: ج۲ ص ۱۹۰ تا ۱۹۳۔ اسی طرح محمد علی المالکی (متوفی ۱۳۶۶ھ) نے اپنی کتاب مسلک السادات إلی سبیل الدعوات میں اور مولانا اشرف علی تھانوی (متوفی ۱۳۶۲ھ) نے اس کتاب کی تلخیص میں ، پھر ظفر احمد تھانوی نے انہی کا تتبع کرتے ہوئے اعلاء السنن (۴/۱۶۴) میں اور علامہ بنوری نے معارف السنن(۳/۱۲۳) میں اسے ذکر کیا، حالانکہ اصل کتاب میں وہ الفاظ ہی نہ تھے کہ جن کی بنیاد پر مسئلہ مذکور ثابت کیا جارہا تھا۔مذکورہ بالا یہ تفصیل شیخ ابوغدہ عبدالفتاح نے اپنی تالیف ثلاث رسائل فی استحباب الدعاء ص۱۳۸ تا ۱۴۰ میں رقم کی ہے۔ (محدث)