کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 20
دعا کے قائلین نے جن روایات کو اپنے استدلال کی بنیاد بنایا ہے، وہ بھی ذخیرۂ حدیث میں موجود اور محدثین کے سامنے تھیں ۔ لیکن اس کے باوجود آپ ائمہ محدثین کے ابواب و تراجم کو اٹھا کر دیکھیں ، آپ کو اجتماعی دعا کے فرض یا استحباب پرادنیٰ سی جھلک بھی نظر نہیں آئے گی۔ اجتماعی دعا کے قائلین کے دلائل اور ان پر محاکمہ درج ذیل ہے: 1. بطورِ مثال حضرت ابوامامہ کی روایت کو لیجئے … رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ دعاکس وقت زیادہ قبول ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایا: جوف اللیل الاخر ودبر الصلوات المکتوبات رات کے آخری حصہ میں اور فرض نمازوں کے بعد۔ (ترمذی:۵/۱۸۸/ عمل الیوم واللیلۃ للنسائی:ص۱۸۶) یہ روایت ابواب ماجاء في جامع الدعوات کے ضمن میں بیان ہوئی ہے اور امام ترمذی نے اس پر حسن کا حکم لگایاہے۔ اصل صورت ِحال یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس میں ابن جریج مدلس راوی ہے ۔ دارقطنی نے کہا کہ بدترین تدلیس ابن جریج کی ہے کیونکہ وہ تدلیس اس وقت کرتا ہے جب اس نے حدیث کسی مجروح سے سنی ہو۔ اسی امر کی صراحت حافظ ابن حجر کی کتاب طبقات المدلسین میں بھی موجود ہے اور روایت ِہذا کو ابن جریج نے عنعنہ سے ذکر کیا ہے، سماع اور تحدیث کی صراحت نہیں کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ سند میں انقطاع ہے کیونکہ اس میں راوی عبدالرحمن بن سابط کا ابن جریج سے سماع ثابت نہیں ، امام ابن معین نے یہی کچھ کہا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ اس حدیث میں دبرالصلوات المکتوبات کا اضافہ ’شاذ‘ ہے۔ کیونکہ اس حدیث کی ابوامامہ سے پانچ سندیں اور بھی ہیں جن میں یہ اضافہ نہیں بلکہ صرف پہلے ٹکڑے جوف اللیل الاٰخر پر اکتفا کیا گیا ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ’الفتوحات الربانیۃ‘ :۳/۳۰ اگر اس حدیث کو مان بھی لیاجائے تب بھی چونکہ اس حدیث میں اجتماعی دعا کا تو ذکر ہی نہیں ، اس لئے یہ دلیل کیسے بن سکتی ہے؟ صاحب ِمشکوٰۃ نے اس حدیث کو عنوان ’باب الذکر بعد الصلوٰۃ‘ کے تحت ذکر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف کے نزدیک اس سے مقصود عمومی ذکر واذکار ہیں جو انفرادی طور پر ہاتھ اٹھائے بغیر دعا ہی کی ایک شکل ہے اور ان میں کسی کوکوئی