کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 19
میں نے ساری تفصیل سے آپ کو آگاہ کردیا ہے۔ برائے مہربانی دونوں صورتوں میں یعنی اگر بدعت ہے تو سنت کہنے والوں کے تمام دلائل کی حقیقت اور اگر سنت ہے تو منکرین کیوں اسے بدعت کہتے ہیں ، مکمل تفصیل سے بیان کریں ۔ نیز سابقہ علما اور محدثین کے مسلک کو بھی بیان کریں ۔ جزاکم اللہ خیراً (محمد نوید عامر) الجواب بعون الوہاب بلا شبہ عام حالات میں ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے جس میں کوئی شک نہیں ہوناچاہئے۔ اس موضوع پر علامہ سیوطی کا ایک مستقل رسالہ بنام فض الوعاء فی أحادیث رفع الیدین فی الدعاء بھی ہے اور اسی موضوع پر حافظ منذری کی بھی ایک تصنیف ہے اور امام نووی نے المجموع شرح المہذب(۴/۵۰۷تا۵۱۱) میں صفۃ الصلاۃ باب کے آخرمیں صحیحین سے یا دونوں میں سے کسی ایک سے قریباً تیس احادیث جمع کی ہیں جن میں دعا میں رفع الیدین کی تصریح موجود ہے۔ مزید برآں قرآن کی متعدد آیات میں دعا کی صرف ترغیب و تحریص ہی نہیں بلکہ دعا کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جن کی عملی تفسیر خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ يُّوْحٰی﴾’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش نفس کی پیروی میں بات نہیں کرتے وہ تو وحی ہوتی ہے جو ان پراتاری جاتی ہے۔‘‘ (النجم:۳،۴) شریعت کی قولی و فعلی تشریحات کتب ِاحادیث اور ان کی شروح میں محفوظ ہیں جن کے ذریعے ایک طالب ِحق بآسانی مطلوبہ مقاصد سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے۔ بالخصوص نما زایک عظیم فریضہ ہے جس کی جملہ جزئیات کا عملی نمونہ ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے اور صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت آپ کی اقتدا میں پانچوں وقت نمازیں پڑھتی تھی۔ اُنہوں نے ہر اعتبار سے نماز کے مسائل کی وضاحت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر ان سے کسی ایک فرد نے بھی نماز کے بعد اجتماعی دعا کاذکر تک نہیں کیا۔ پھر محدثین عظام جن کی حدیثی خدمات اظہر من الشمس ہیں جنہوں نے ایک ایک فرمانِ نبوی سے بے شمار مسائل کا استنباط واستخراج کیا، کبھی کسی نے کسی روایت سے فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا وجوب یا استحباب کا مسئلہ اَخذ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اجتماعی