کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 18
دوسری طرف گوجرانوالہ کے عالم دین مولانا بشیرالرحمن سلفی صاحب نے اپنی کتاب غالباً ’الدعاء ؛ روحِ عبادت‘ میں اس دعا کو بہت ساری حدیثوں اور آیتوں کی رو سے سنت ِثابتہ بتلاتے ہیں ۔ منکرین کو نوخیز علما میں شمار کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک سابقہ علماے اہلحدیث مثلاً مولانا اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا یہ موقف نہیں تھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی ایک روایت پر وہ بہت زور دیتے ہیں ۔
اسی مسئلے پراس سلسلے کی دوسری کتاب جس کے اوپر یعنی باہر والے ٹائٹل پر ’فرض نمازوں کے بعد دعائے اجتماعی کے فضائل و دلائل‘ از مولانا عبدالجبار سلفی اور اندر والے ٹائٹل پر ’فرض نمازوں کے بعد دعائے اجتماعی اور اہلحدیث کا مسلک ِاعتدال‘ لکھا ہوا ہے۔ مولانا ابو مسعود عبدالجبار سلفی صاحب بھی اسے سنت ہی بتلاتے ہیں اور بہت ساری حدیثوں اور آیتوں سے حوالے دیتے ہیں ۔ مؤخر الذکر دونوں علما منکرین ِاجتماعی دعا (یعنی علمائ) کو بعض جگہ پر بہت سخت الفاظ کہہ جاتے ہیں جس کا اندازہ دونوں کتابیں پڑھنے سے ہوتا ہے۔
اب آپ بتائیں کہ ایسی صورتحال میں ہم کیا کریں ۔ دونوں طرف اہل حدیث علماء ہیں کچھ سنت بتلا رہے ہیں اور کچھ بدعت (معاملہ سنت اور بدعت کا ہے)۔ اس سلسلے میں بہت سے سوال ذہن میں اٹھتے ہیں مثلاً :
1. اہلحدیث علماء میں اتنا ا ختلاف کیوں ہے؟
2. کیا واقعی یہ دعا بدعت ہے؟ اگر ہے تو پھر جو علماء اسے سنت سمجھتے ہیں ، بالخصوص جن کا میں نے ذکر کیا ہے، ان کی کتابوں میں جو دلائل ہیں ان کا کیا کریں ؟
3. اور اگر بدعت نہیں ہے تو جو علماء اسے بدعت سمجھتے ہیں ، وہ کن دلائل کی رو سے اسے بدعت کہتے ہیں ؟
4. یا پھر یہ مسئلہ اجتہادی ہے (سنت ، بدعت والا کوئی مسئلہ نہیں ) جس کی جو تحقیق ہو عمل کرے۔ دونوں طرح ٹھیک ہے… گنجائش موجود ہے؟
5. انفرادی دعا فرائض یا سنن کے بعد باقاعدگی سے جائز ہے؟ یا کبھی کبھار؟
6. بعض علماء صرف جمعہ کی نماز کے بعد ہمیشہ دعا کرتے ہیں ۔ اس میں شرکت کا کیا حکم ہے؟