کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 16
نہایت اطمینان سے جواب دیتے ہیں کہ ’’وہ اللہ جس کے ہاتھ میں میری اور تمہاری جان ہے، مجھے بچائے گا۔‘‘ دشمن کے ہاتھ میں رعشہ پڑ گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ وہی تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکڑ لی اور کہا کہ بتلا! تجھ کو میری تلوار سے کون بچائے گا۔ اس نے رو کر کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کریم ابن کریم ہیں ۔ آپ نے تلوار پھینک کر فرمایا: ’’کم بخت! اب بھی تیرے منہ سے اللہ نہیں نکلتا۔‘‘ اس نے فوراً کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔یہ تینوں واقعات ہیں جو تقریباً تمام انگریز مؤرخین نے لکھے ہیں ۔ ہم عیسائی مؤرخین کو چیلنج کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تمام زندگی اور دنیا کے جس قدر بڑے آدمی گزرے ہیں ، ان کی سوانح چھان ماری کرکے اس قسم کا ایک واقعہ ٔجوانمردی اور توکل علیٰ اللہ کا پیش کریں ۔ اوپر جو حالات ہم نے مسیح علیہ السلام کے انجیل سے نقل کئے ہیں اور بعد میں جو واقعات ہم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انگریز مؤرخین سے نقل کئے ہیں ، ان کے مطالعہ کے بعد مزید مقابلہ فضول ہے اور اس پر کچھ لکھنا بے سود محض!! اس سے ناظرین کو صاف ظاہر ہوجائے گا کہ قول و عمل کا تطابق اور کمالِ توکل علیٰ اللہ کی موجودگی جو ایک نبی کی صفاتِ مخصوصہ میں سے ہیں ، کس میں پائی جاتی ہیں ۔ یہ حضرت عیسیٰ کہ خطرۂ مرگ کے وقت یہ بھی یقین نہیں رہتا (بشرطیکہ اناجیل کی کہانی تسلیم کرلی جائے) کہ اللہ تعالیٰ میرے پاس ہے،بلکہ خوف و ہراس کی شدت کے باعث وہ ایک لحظہ کے لئے خدا کے جمال کو پنہاں پاتے ہیں اور مایوسی کے عالم میں پکارتے ہیں :’’ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو مجھ کو چھوڑ گیا ہے‘‘ اور اس کے برخلاف آنحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا خیال تک بھی نہیں آتا اور وہ سخت سے سخت خطرہ کے وقت بھی کہتے ہیں کہ ’’اللہ ہمارے ساتھ ہے، وہی بچائے گا۔‘‘ ع بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تا بہ کجا ! ناظرین کو انجیل کے بیانات دربارہ مسیح پڑھ کر یہ احساس ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تنزیہ (عیوب والزامات سے پاک کرنے) کی کس قدر اشد ضرورت تھی۔ یہود ان کی تاریخی تصویر تو کھینچتے ہی تھے کیونکہ وہ دشمن تھے، مگر ان کے پیرویہ عیسائی بدبخت بھی ان کی کچھ کم تاریک تصویر پیش نہیں کرتے تھے۔ اسلئے ہمارے پیغمبر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان عیسائی دنیا پر اس قدر عظیم الشان اور لازوال ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح کو ان سب الزامات سے بری فرمایا۔ مگر عیسائی اقوام کی سرشت میں ناشکری داخل ہے، اسلئے یہ اپنے حقیقی محسن کے احسانات کا اعتراف نہیں کرتے۔