کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 15
دیکھ کر خائف ہوجاتے ہیں ۔ اپنی زندگی کے لئے نہیں ، بلکہ اس شمع ہدایت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے لئے جس کے وجود سے چراغِ توحید روشن تھا، اس حیاتِ طیبہ قدسیہ کے لئے جو اخلاقِ الٰہی کا دنیا میں مجسمہ تھا، خائف ہوتے ہیں اور اپنی بے بسی کے احساس سے ہراساں ہوتے ہیں ۔
اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بے خوف ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ اَقدس بشاش ہے اور اس پر تمکنت برس رہی ہے اور خوشی سے بدستور چہرہ مبارک ٹمٹما رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجسم صدائے زبانی بن کر فرماتے ہیں : ﴿لاتَحْزَنْ إِنَّ ﷲَ مَعَنَا﴾ ’’اے میرے دوست! تو غم نہ کر، اللہ بلاشبہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ کیونکہ اگر کفار مسلح ہیں تو ہمارا ہتھیار خود اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر وہ ہمارے خون کے پیاسے ہیں تو ربّ تعالیٰ ہمارا نگہبان ہے۔ تو ہر گزنہ ڈر، کیونکہ مجھے مبعوث کرنیوالا، مجھے اپنے بندوں کی ہدایت پر مامور کرنیوالا خود مجھے بچائے گا۔ اللہ اکبر، ذرا توکل و اعتماد الٰہی کو ملاحظہ کیجئے !!
دوسرا واقعہ ملاحظہ ہو؛جنگ ِحنین میں جبکہ کفار کا پانچ ہزار کا لشکر نہایت جانفشانی سے تیروسنان، تلوار و تفنگ سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور لشکر ِاسلامی کے پاؤں اُکھڑ جاتے ہیں اور سب ہراساں ہوکر تتر بتر ہوجاتے ہیں ۔ ذات ِکریمی صفات صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید خچر پر سوار ہیں اور چہار طرف سے اَعدا کے نرغے میں پھنس جاتے ہیں ۔ ایسے کڑے وقت میں کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا جاتے ہیں ۔ ايلی أيلی لما سبقتني کہتے ہیں یا اپنے انصار و معاونین کو پکارتے ہیں ۔ زبانِ فیض ترجمان صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا ہے بھی ہے تو کیا… أنا النبي لا کذب أنا ابن عبد المطلب
میرے نبی ہونے میں کوئی شک نہیں ، اس لئے ناممکن ہے کہ میں شکست کھاؤں یا میدان میں پیچھے ہٹوں ۔ نیز میں نہایت شریف خاندان کا شریف ترین رکن ہوں ، اس لئے میرے لئے باعث ِعار ہے کہ میں دشمن کو پیٹھ دکھاؤں !!
چنانچہ آپ خچر سے اُتر کر لشکر ِکفار میں گھس گئے اور اکیلے تن تنہا پانچ ہزار کے مقابلہ میں اُتر آئے اور تمام لشکر کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اتنے میں مسلمانوں کے پاؤں بھی سنبھلے، پلٹے اور ایک ہی حملہ میں دشمن کا صفایا کردیا۔
ایک اور واقعہ لیجئے؛ حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم درخت کے سایہ کے نیچے استراحت فرما رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کا پیاسا ایک دشمن تلوار لئے ہوئے آجاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کرکے کہتا ہے:’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) بتا، تمہیں آج میری شمشیر قابل تحقیق سے کون بچا سکتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم