کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 14
اور بالآخر اسی طرح چلاتے چلاتے مسیح نے جان دے دی: ’’پھر یسوع بڑی آواز سے چلایا اور جان دے دی۔‘‘ (متی: باب ۲۷/ آیت ۵۰) اور اس زندگی کا خاتمہ جو تمام عمر اپنی کمالِ قدرت اور آسمانی باپ پر توکل و اعتماد کے وعظ کہتا رہا،بقول عیسائی مصنّفین کے خاتمہ ہوگیا۔ اب ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کہاں مسیح کی یہ تعلیم کہ خدا سے کچھ مت مانگو،کیونکہ وہ تمہاری سب ضرورتوں سے واقف ہے اور اسی پر اعتماد کرو اور مصیبت میں جزع و فزع نہ کرو اور کہاں ان کا اپنا عمل جس میں فرشتے کے یقین دلانے سے بھی تسلی نہیں ہوتی اور زندگی کی خواہش باقی رہتی ہے۔ اور بالآخر اللہ پر وہ سب اعتماد جاتا رہتا ہے اور غم و غصہ میں پکارتے ہیں : ’’ اے میرے خدا، اے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے۔‘‘ ہم تو ایسے نمونہ کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں اور بالیقین کہیں گے کہ اس سے زیادہ عزم و حوصلہ کے ساتھ تو معمولی آدمیوں نے موت کے پیالہ کو منہ لگایا ہے اور اس وقت بجائے افسوس و غم و غصہ کا اظہار کرنے کے نہایت مسرت کے ساتھ اپنی روح کو قابض الارواح کے حوالہ کیا ہے۔ کہاں عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ مسیح کی موت عیسائیوں کے گناہ کے کفارہ کے باعث اس کی اپنی مرضی سے واقع ہوئی اور کہاں حضرت مسیح کا یہ قول : ’’أيلی أيلی لما سبقتنی!‘‘ مؤخر الذکر عیسائیوں کے دعویٰ کی سب سے بڑی تکذیب ہے۔ فافہم و تدبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ سیرت ظاہر ہے کہ مسیح کا یہ کردار تو معمولی آدمیوں کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا، چہ جائیکہ ہم اس کا مقابلہ دنیا کے سب سے کامل انسان کے کردار کے ساتھ کریں ۔ مگر اصل مقصود چونکہ یہی ہے لہٰذا ہم یونہی ’مشتے نمونہ از خروارے‘ آپ کی زندگی کے چند واقعات ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں جس سے ہمارے سرورِ عالمین کے کردار اور اعتماد علیٰ اللہ پر روشنی پڑے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے وفادار رفیق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غارِ ثور میں جلوہ افروز ہیں اور آپ کے خون کے پیاسے قریش، وہ کفارِ قریش جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خانہ مبارک کے گرد جمع ہوگئے تھے لیکن ناکام رہے اور اس ناکامی نے ان کی آتش انتقام کو اور بھی برافروختہ کردیا تھا۔ وہ کفارِ قریش جو تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے اور حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سوائے ایک عصا کے اور کچھ نہ تھا۔ وہ گروہ غار کے کنارے پہنچ جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں