کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 13
آخری وقت سے بچنے کے لئے کمالِ گریہ و زاری اور اس زندگی کے امتداد کی خواہش میں آہ و بکا کی تصویر کھینچی گئی ہے۔ چنانچہ اس کمزوری اور بے حوصلگی کو اکثر مسیحی مصنّفین نے بھی محسوس کیا ہے اور انہوں نے اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں ، جن میں سب سے معقو ل یہ ہے کہ چونکہ یہ اناجیل سب کی سب موضوع ہیں ، اس لئے ساقط الاعتبار ہیں ۔ مگر خیر ہمیں یہاں ان سے سروکار نہیں ۔ حضرت مسیح اسی گھبراہٹ میں تھے اور کبھی ان کو خیال آتا تھا کہ اپنے شاگردوں کو تلواروں سے مسلح کردیں تاکہ گرفتار کرنے والوں کامقابلہ کریں ۔ مگر پھر ان کی عقیدت اور قوتِ ایمانیہ پر بھروسہ نہ کرکے اس خیال کو ترک کرتے ہیں ۔ کبھی انہیں یہ خیال ہوتا ہے کہ فرار ہوجائیں ۔ مگر پھر اپنے مشن کی ناکامی کا خیال کرکے رک جاتے ہیں ۔ کبھی وہ بنی نوعِ انسان کی بے وفائی کا خیال کرکے کف ِافسوس ملتے ہیں اور کبھی دنیاوی زندگی کی پرفریبی کا تصور ان کو خون کے آنسو رلاتا ہے۔ (دیکھو اناجیل اربعہ: ذکر گرفتاری و وفاتِ مسیح) کبھی ان کے دل میں یہ خیال جاگزین ہوتا ہے کہ جوکچھ انہوں نے کیا، وہ محض بیکار تھا۔ الغرض اسی کشمکش میں حضرت مسیح اپنی زندگی کی آخری چند گھڑیاں گذارتے ہیں ۔ بالآخر وہ وقت جس کا دھڑکا تھا، آن پہنچتا ہے اور حضرت مسیح گرفتار ہوکر اپنے پیروؤں کی کمال بیوفائی کا برأي العینمشاہدہ کرتے ہیں ۔ (متی: باب۲۶ ’اور وہ سب، یعنی شاگرد بھاگ گئے) اور حاکم وقت کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور ان پر سزائے موت کا فتویٰ صادر ہوتا ہے اور وہ عظیم الشان ابتلا کا وقت آن پہنچا اور حضرت مسیح صلیب پر لٹکا دیئے جاتے ہیں ۔ تو اس وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے۔ کیا ان کا پائے ثبات غیر متزلزل رہتا ہے اور اللہ پر بھروسہ قائم رہتا ہے اور وہ خوشی سے موت قبول کرتے ہیں ، کیونکہ بقول عیسائیوں کے وہ خوشی سے ان کے گناہوں کے کفارہ میں لعنت کی موت مر رہا تھا۔ نہیں ، بلکہ اناجیل کے اپنے بیان کے مطابق ان کا دل بیٹھ گیا اور ایک بادل نے اس کے آسمانی باپ کا روشن جمال اس سے مستور کردیا اور اسے مایوسی کی ایسی جان کنی کا احساس ہوا کہ اس کی تمام مصائب سے ہزارہا گنا زیادہ تکلیف دہ تھی۔ اور وہ فرطِ کرب سے چلایا اور جزع و فزع کرنا شروع کی، یہاں تک کہ شدتِ الم میں یہ پکار اٹھا : ’’أیلی أیلی! لما سبقتنی‘‘ (متی: باب ۲۷/ آیت ۴۶) ’’خدایا، اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے۔‘‘