کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 11
ہیں ۔ ہمارا مقصود اس سے معاذ اللہ ان کی تحقیر و تحقیق نہیں ہے، بلکہ ان کے اس کردار پر روشنی ڈالنا مقصود ہے جو ان کے نادان دوستوں نے ’اَناجیل اربعہ‘ میں پیش کیا ہے۔ ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دامن تو ایسے نازیبا دھبوں سے بالکل پاک ہے۔
حضرت مسیح کی سیرت ؛ اناجیل میں
حضرت مسیح علیہ السلام کی ایک تعلیم اناجیل میں ’پہاڑ کے وعظ‘ سے موسوم ہے۔ یعنی ایک دن حضرت مسیح نے پہاڑ پر بیٹھ کر اپنی تمام تعلیم کا لب ِلباب بیان کردیا۔ یہاں ہمیں اس سے بحث نہیں کہ ایک دفعہ گراموفون کی طرح ساری کی ساری کیسٹ ختم کرنے اور یاد کردہ دہرانے سے حاضرین پر کوئی اثر بھی ہوسکتا تھا یا نہیں ؟ بلکہ ہم یہاں فقط اس کے ایک حصہ سے بحث کریں گے جو انبیا کی تعلیم کا اہم ترین جزو اور ان کے عمل کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے، یعنی اعتماد علیٰ اللہ (اللہ پر کامل پر بھروسہ کرنا)۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
’’تم اپنی جان کی فکر نہ کرنا۔ تم میں سے ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے…‘‘ (متی :باب۶/ آیات ۲۵ تا ۲۷)
یعنی چونکہ سب کچھ، انسان کی موت و حیات، اسے روزی دینا و سامانِ زیست مہیا کرنا خدا کے اختیار میں ہے، اس لئے اسی پر توکل رکھو کیونکہ’’تمہارا آسمانی باپ تمہاری سب حاجتوں کو جانتا ہے۔‘‘ (متی: باب۶/ آیت ۳۲)
یعنی خدا تعالیٰ کو چونکہ تمہاری سب ضروریات کا علم ہے اور وہ ہر وقت تمہارے حال پر نگرانِ کار ہے، اس لئے اسی پر اعتماد رکھو کہ وہ کمالِ رحمت و محبت سے تمہاری سب ضروریات کو جانتا ہے اور ان کو پورا کرتا ہے اور وہ کبھی بھی تمہیں تمہارے حال پر نہیں چھوڑے گا۔ اس لئے ان کی طلب میں یا تکلیف کے وقت میں گریہ و زاری کرنا یا شکوہ و شکایت کرنا بے سود ہے!!
یہ واقعی نہایت ہی اعلیٰ تعلیم ہے۔ اور چاہئے تھا کہ معلم خود اس کا عملی نمونہ بن کر دکھاتا اور جو شخص ہر کہ ومہ کو مصیبت کے وقت میں صبر کی اور اللہ پر توکل کی تعلیم دیتا تھا، اسے چاہئے تھا کہ خود بھی مصیبت کے وقت صبر و عزیمت کا نمونہ بن کر دکھاتا۔ مگر نہیں ؛ حضرت مسیح پر خود وہ وقت آن پہنچا جب وہ ابتلاؤں میں ڈالے جانے والے تھے اور ان کو معلوم ہوا کہ یہودی ان کے قتل کے درپے ہیں اور عنقریب وہ گرفتار ہوکر حاکم وقت کے سامنے پیش کئے جانے والے ہیں تو ان