کتاب: محدث شمارہ 269 - صفحہ 10
اَ د یان و مذ ا ہب مولانا محمد علی قصوری [ قسط نمبر۳] ایم اے، کینٹب کیا قرآن کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں اُلوہی صفات تھیں ؟ مسیح اور پیغمبر کی سیرت کا مقابلہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے زیادہ کامل و اکمل زندگی کا تصور ہی ناممکن ہے۔ چنانچہ ہم اس امر کو زیادہ واضح کرنے کے لئے حضور کا مقابلہ انجیلی مسیح سے (یعنی مسیح علیہ السلام کی وہ تصویر جو انجیل میں کھینچی گئی ہے) کریں گے، اس سے جہاں ناظرین کو ہمارے دعویٰ کی تصدیق ہو جائے گی وہاں معیار و مدارِ فضیلت ِانبیا پر بھی پوری روشنی پڑے گی۔ کیونکہ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو جس طرح دو انسانوں کا مقابلہ کرتے وقت ان میں معیارِ ترجیح فقط وہ جوہر انسانیت ہی ہوسکتا ہے، جسے عرفِ عام میں ’کردار‘ اور اصطلاحِ شرع میں ’قوتِ ایمانیہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، اسی طرح جب دو انبیا یا ایک نبی اور ایک ابن اللہ (نعوذ باللہ) کا مقابلہ و موازنہ کریں گے تو اوّلاً ان کے ذاتی کردار اور بعدمیں ان کی تعلیمات اور بعد ازاں ان کی تعلیمات کے نتائج پر غور کرنا پڑے گا۔ اور ان تینوں چیزوں کے تقابل و توازن پر ہی ترجیح کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ انبیا چونکہ توحید ِالٰہی اور تزکیۂ نفوس و تہذیب ِاخلاق کے لئے تشریف لاتے ہیں ، اس لئے ان کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے وہ اللہ پر اعتماد اور تطابق ِقول و عمل ،جوکردارکے اہم ترین جزو ہیں کی پوری تصویر ہوں ـ؛ ورنہ ؎ واعظانِ کیں جلوہ بر محراب و ممبر می کنند چوں در خلوت نہ جلوت مے روند آں کار دیگر کنند کے مصداق ہوں گے۔ اور جو خود ہی گمراہ ہو، دوسروں کو کیا ہدایت کرسکتا ہے۔ اور بالخصوص نبی علیہ السلام جس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بندؤں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے اور اللہ کی طرف سے لوگوں کو خدا پر اعتماد سکھلانے کے لئے مامور ہے،ظاہر ہے کہ اس کا اعتماداس درجہ کامل ہونا چاہئے کہ کوئی زبردست سے زبردست آزمائش بھی اس کے کوہِ صبر کو اپنی جگہ سے نہ ہلا سکے۔ ان تمہیدی بیانات کے بعد ہم حضرت عیسیٰ کا انجیلی کردار پیش کرنا چاہتے