کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 90
مؤخر الذکر (قرآن) میں کوئی بیان بھی ایسا نہیں ، جو سائنسی نقطہ نظر سے متصادم ہوتا ہو۔ یہ وہ بنیادی حقیقت ہے، جو ہمارے جائزہ لینے سے اُبھر کر سامنے آتی ہے۔‘‘(۳۳) اور ڈاکٹر کیتھ مورجن کا اس سے قبل بھی ایک بیان گزر چکا ہے، ان کا ایک اور بیان ملاحظہ کیجئے : ’’۱۳ سو سالہ قدیم قرآن میں جنینی ارتقا کے بارے میں اس قدر درست بیانات موجود ہیں کہ مسلمان معقول طور پر یہ یقین کرسکتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے اُتاری ہوئی آیتیں ہیں ۔‘‘(۳۴) خلاصۂ بحث سائنس اور مذہب کے باہمی تعلقات اور ان کے مابین مفاہمت کے بارے میں درج بالا بیانات اور سطور پر غوروفکر کرنے سے انسان دو باتیں بہت سہولت کے ساتھ اَخذ کرسکتا ہے۔ ایک یہ کہ انسان کسی بھی ذریعے سے کائنات اور اس کی اشیا کے بارے میں وہ باتیں نہ جان سکا تھا، جو قرآنِ مجید نے بتائی ہیں ۔ دوسری بات یہ اَخذ کی جاسکتی ہے کہ اس کائنات کی مادّی دنیا میں جو کچھ اب تک ہوچکا ہے، جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے، وہ صرف خدا کے حکم سے ہورہا ہے اور اس کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوتا، بہ الفاظ دیگر ہر کام میں علت (Cause) اور معلول (Effect) کے علاوہ غایت(Purpose) بھی لازماً کارفرما ہے، اور کائنات کی ہر شئے اور اس کا ہر قدم اسی سہ رکنی عمل کا نتیجہ ہے۔(۳۵) اس لئے ہمیں باہمی مشترک قدروں کو اَپناتے ہوئے اور تمام مادّی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے، انسانی زندگی کے دونوں اہم پہلوؤں اور انسانی زندگی کی دونوں اہم ضرورتوں کو، ان کی ضرورت، حق اور حیثیت کے مطابق ان کا حق دینا ہوگا۔ نہ تو مذہب کے فرضی اور دیو مالائی مفروضات اختیار کرکے ہم سائنس سے دور رہ سکتے ہیں ، نہ سائنس کو خدا کا درجہ دے کر خالق حقیقی سے اپنی زندگیوں کو خالی رکھ سکتے ہیں اور اگر بالفرض ایسا کریں گے بھی تو کامیابی کی راہ سے دور ہوتے چلے جائیں گے اور فلاح کی جگہ ناکامی ہمارا مقدر بنے گی۔ حواشی وحوالہ جات.......................... ۱۔مولانا وحید الدین خان،اسلام اور عصر حاضر، فضلی سنز پرائیویٹ لمیٹڈ کراچی، ۱۹۹۶ء ، ص۱۱۳، کسی قدر اضافے اور ترمیم کے ساتھ یہ تفصیل اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ ۲۔نفس مصدر، ص۱۱۲، نیز دیکھئے: سائنس اور مذہب میں مفاہمت، حفیظ الرحمن صدیقی، مشمولہ سہ اشا عتی آیات،