کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 89
دی جائے گی تاکہ وہ مسلسل عذاب کا مزا چکھتے رہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اصل میں جلد ہی تکلیف محسوس کرتی ہے۔ اب سائنس نے بھی یہ بات دریافت کرلی ہے کہ تمام تکالیف جلد ہی پر ہوتی ہیں ، اور اعصاب جو درد کا اِدراک کرتے ہیں ، وہ فقط جلد ہی میں پائے جاتے ہیں ، مثلاً اگر جسم کے کسی حصے میں سوئی چبھوائی جائے تو درد صرف جلد میں ہوگا، اور سوئی کو جلد سے آگے گزار دیا جائے، تب بھی فی الواقع درد جلد تک محدود رہے گا، آگے گوشت میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔(۳۱) ان سطور میں قرآنی بیانات کی سائنس سے تائید دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنا یہ دعویٰ ثابت کردیا جائے کہ سائنس کے بارے میں اسلام کا رویہ معاندانہ نہیں ہے، نہ مخالفانہ ہے، بلکہ وہ اسے زندگی کی دیگر دوسری ضرورتوں اور لوازم کی طرح باور کرتا ہے، اور جدید سائنس بھی قدم بہ قدم اس کے بیانات ہی کو آگے بڑھا رہی ہے۔ قرآن کریم میں پیش کردہ رہنمائی کو پیش نظر رکھ کر اگر سائنس قدم آگے بڑھائے، تو اس کے لئے حقائق تک جلد پہنچنا ممکن ہوگا۔ اس کی تائید ان چند بیانات سے ہوتی ہے، جس کی جھلکیاں اوپر پیش کی گئیں ، وقت کی قلت اور مقالے کی محدود گنجائش کے سبب اس جانب چند اشارے ہی کئے جاسکے ہیں ، مگر ان سطور کا مقصد اس سے ضرور حاصل ہوجاتا ہے۔ اعترافِ حقیقت یہ بات باشعور اور علم رکھنے والے مفکرین سے بھی پوشیدہ نہیں ، بلکہ سبھی اس حقیقت کو تسلیم کررہے ہیں کہ اسلام اور سائنس دونوں آج کی زندہ ضرورتیں ہیں ، جن سے اِعراض ممکن نہیں ، معروف نو مسلم فرانسیسی مصنف موریس بوکائے لکھتے ہیں : ’’قرآن ہمیں جہاں جدید سائنس کو ترقی دینے کی دعوت دیتا ہے، وہاں خود اس میں قدرتی حوادث سے متعلق بہت سے مشاہدات و شواہد ملتے ہیں ، اور اس میں ایسی تشریحی تفصیلات موجود ہیں جو جدید سائنسی مواد سے کلی طور پر مطابقت رکھتی ہیں ، یہودی، عیسائی تنزیل میں ایسی کوئی بات نہیں ۔‘‘(۳۲) دوسرے مقام پر مزید لکھتے ہیں : ’’قرآنِ کریم میں ، مقدس بائبل سے کہیں زیادہ سائنسی دلچسپی کے مضامین زیر بحث آئے ہیں ، بائبل میں یہ بیانات محدود تعداد میں ہیں ، لیکن سائنس سے متباین ہیں ۔ اس کے برخلاف قرآن میں بہ کثرت مضامین سائنسی نوعیت کے ہیں ، اسلئے دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں ،