کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 87
اور بہبود مضمر تھی۔ ’سائنس‘ قرآن کا اثبات کرتی ہے! جیسا کہ عرض کیا گیا کہ سائنس کے جدید انکشافات و اکتشافات نے اسلام کے بیان کردہ اُصولوں کا اثبات اور ان کی تائید کی ہے، اس لئے اسلام کو سائنس کی جانب سے کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے، بلکہ جب مذہب اور سائنس کا باہم ٹکراؤ شروع ہوا، جس کا سرسری سا تذکرہ ان سطور کے آغاز میں گزر چکا ہے، تب بھی چونکہ وہ مسئلہ عیسائیت کی محرف روایات کا تھا، نہ کہ اسلام کا، اس لئے مسلمان اس و قت بھی کسی ذہنی اُلجھن کا شکار نہیں ہوئے، اور جب مرکزیت ِآفتاب کا نقطہ نظر سامنے آیا، تو مسلم سائنس دانوں نے اسے زیادہ معقول اور مدلل پاکر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کرلیا، پروفیسر ایڈورڈ میک برنس لکھتے ہیں : ’’مسلمان ماہرین فلکیات و ریاضیات، طبیعات، کیمیا، اور طب میں نہایت باکمال عالم تھے، ارسطو کے احترام کے باوجود انہوں نے اس میں ذرا تامل نہیں کیا کہ وہ اس کے اس نظریے پر تنقید کریں کہ زمین مرکز ہے، اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے بلکہ انہوں نے اس اِمکان کو تسلیم کیا کہ زمین اپنے محور پر گھومتی ہوئی سورج کے گرد گردش کررہی ہے۔‘‘(۲۱) ذیل میں ہم چند سائنسی مظاہر اور نئی معلومات پیش کرتے ہیں جو قرآنِ حکیم کی تائید کررہی ہے، یہ ان ہی آیات کے بارے میں ہیں ، جن کا ذکر ہم ابھی ماقبل کرآئے ہیں : (i) قرآنِ حکیم اور انسانی جنین کا ارتقا : قرآن حکیم میں انسانی جنین کے بارے میں کئی ایک مقامات پر تفصیل سے معلومات دی گئی ہیں ۔ یہ وہ معلومات ہیں جو ۱۴۰۰ سو سال سے پڑھی جارہی ہیں ، مگر اس صدی میں جاکر سائنس نے بھی اس امر کی تائید کردی ہے کہ یہ معلومات نہ صرف حرف بہ حرف درست ہیں ، بلکہ چونکہ یہ معلومات اس وقت پیش کی گئی ہیں ، جب یہ باتیں کسی کے علم میں نہیں تھیں ، اس لئے قرآن حکیم اور اسلام کے آسمانی مذہب ہونے اور مبنی برحق ہونے کی بین دلیل بھی ہیں ، قرآن حکیم کی ایک آیت اس سے قبل( آیت نمبر ۱) پیش کی جاچکی ہے۔(۲۲) جس میں تفصیل کے ساتھ انسانی جنین کی تشکیل کے مراحل بیان ہوئے ہیں ۔ ڈاکٹر کیتھ ایل مور (Khith L Moore) جینیات کے ایک معروف سائنس دان ہیں ، انہوں نے ایک بار اس بارے میں اپنے ایک مقالے میں کہا :