کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 85
تاکہ شاہراہِ زیست پر سفر کرتے ہوئے اسے کسی قسم کی دقت اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآنِ حکیم کا یہ بھی اعجاز ہے کہ اس میں دیگر علوم و فنون کی جانب بھی رہنمائی ملتی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے شواہد موجود ہیں ، ابوبکر ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول ’’قرآنِ حکیم ستتر ہزار چارسوپچاس علوم پر مشتمل ہے۔ یہ عدد قرآنی کلمات کو چار سے ضرب دینے سے حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کے ہر کلمے کی چار حالتیں ہیں : ایک اس کا ظاہر و باطن ہے، اور ایک حد و مطلع۔ یہ اس صورت میں ہے جب قرآن کے کلمات کو انفرادی اعتبار سے ترکیب کے بغیر دیکھا جائے، اگر کتاب کی تراکیب وغیرہ پرغوروفکر کیا جائے تو اس کی (حالتوں اور اسی اعتبار سے اس کے علوم و فنون کی) تعداد شمار و حساب سے باہر ہوجاتی ہے۔‘‘ (۱۴) ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ (مصنف عارضۃ الاحوذی) کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’کتابِ خداوندی ہر چیز کی جامع ہے، کوئی علم اور مسئلہ ایسا نہیں جس کی اصل و اساس قرآنِ کریم میں موجود نہ ہو، قرآن میں عجائب المخلوقات، آسمان و زمین کی سلطنت اور عالم علوی و سفلی سے متعلق ہر شے کی تفصیلات موجود ہیں ، جن کی شرح و تفصیل کے لئے کئی جلدیں درکار ہیں ۔‘‘(۱۵) اسی اعتبار سے قرآنِ حکیم میں سائنسی علوم کی جانب بھی راہنمائی ملتی ہے، اگرچہ یہ چیز قرآن نقطہ نظر سے مطلوب ِاوّل نہیں ہے۔ ذیل میں ایسی چند آیات پیش کی جاتی ہیں : 1. قرآنِ حکیم انسان کے جنین کے ارتقائی مراحل ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے: ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالةٍ مِّنْ طِيْنٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہ نُطْفةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِيْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفةَ عَلَقةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقةَ مُضْغةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغةَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أنْشَأْنَاہ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبَارَکَ اللّهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ﴾(۱۶) ’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے (جوہر) سے بنایا، پھر ہم ہی نے اس کو حفاظت کی جگہ (رحم مادر) میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر ہم نے اس نطفے کو خون کا لوتھڑا بنایا، پھر ہم ہی نے اس لوتھڑے سے گوشت کی بوٹی بنائی، پھر ہم ہی نے اس بوٹی سے ہڈیاں بنائیں ، پھر ہم ہی نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر ہم ہی نے اس کو ایک نئی صورت میں (انسان بناکر) اُٹھا کھڑا کیا تو اللہ بڑا ہی برکت والا، سب سے بہتر بنانے والا ہے۔‘‘ 2. قرآن حکیم میں پہاڑوں کو ’میخیں ‘ کہا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَلَمْ نَجْعَلِ الأَرْضَ مهادًا وَّالْجِبَالَ أَوْتَادًا﴾(۱۷)