کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 84
جائے، تاکہ اس کے بدترین استعمالات اور بھیانک دعوؤں کو لگام دی جاسکے۔‘‘(۱۱) ایک اور دانشور جو خود بھی فزکس کے پروفیسر ہیں ، فرٹ جوف کیپر نے سائنس کے فروغ اور سائنسی رجحانات میں اضافے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبصرہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں : ’’ہماری صدی، یعنی بیسویں صدی کے گذشتہ دو دہے کے آغاز میں ہم اپنے آپ کو گہرے عالمگیر بحران کی حالت میں پاتے ہیں ، یہ مختلف الجہات بحرانوں کا مجموعہ ہے۔ جس کے اثرات ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں یعنی صحت اور سامان زندگی، ماحول کی کیفیت، سماجی تعلقات، معیشت، صنعت اور سیاست کو چھوتے ہیں ۔ یہ بحران، ذہنی، اخلاقی اور روحانی سمت کا ہے۔ یہ بحران ہے میزان اور ضرورت کا، جس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی، پہلی مرتبہ ہمیں نسل انسانی اور اس کے کرۂ ارض کے تمام جانداروں کو ہلاکت کی حقیقی دھمکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘(۱۲) آگے چل کر کیپر، نیوٹن کے نظریۂ حرکت کے طبیعاتی دنیا میں انقلابی اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’مطلق عالمگیر مشین کی اس تصویر میں ایک خارجی خالق مضمر ہے، یعنی ایک شہنشاہ خدا، جس نے دنیا میں اپنے آسمانی قوانین کے نفاذ کے ذریعے حکومت کی ہے، طبیعاتی مظاہر کو کسی بھی معنی میں بجائے خود آسمانی نہیں سمجھا گیا، اور سائنس نے ایسے کسی خدا پر یقین کو زیادہ سے زیادہ مشکل بنا دیا اور تقدس سائنس کے عالمی نظریے سے مکمل طور پر غائب ہوگیا، جس کے نتیجے میں روحانی خلا پیدا ہوا، جو ہمارے تہذیبی دھارے کی خصوصیت بن گیا ہے۔‘‘(۱۳) اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دو وجوہ کی بنا پر، جن میں پہلی وجہ سائنس کے فروغ سے روحانی دنیا میں پیدا ہونے والا خلاہے، اور دوسری وجہ اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی بحران ہے، سائنس کے لئے مذہب کو قبول کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ پھر اہم بات یہ ہے کہ اسلام سائنس کو نہ صرف قبول کرتا ہے، بلکہ وہ خود تجربے اور مشاہدے نیز غوروفکر کی دعوت دیتا ہے، البتہ اس کا مدعا اس سے یہ ہوتا ہے کہ انسان اس تدبر اور غوروفکر کے ذریعے اس کائنات کے ربّ تک پہنچ سکے، اور پھر بعد کے اقدام کے طور پر وہ اس کے احکامات کی بھی بجاآوری کرسکے، یہی انسانیت کی معراج ہے اور یہی اسلام کا مطالبہ ہے!! قرآن اور سائنس قرآنِ حکیم کتابِ حکمت اور صحیفہ ہدایت ہے۔ اس کے پیش نظر انسانیت کی رہنمائی ہے،